Sunday, March 31, 2013

Taj Mahal the wonder


What is it that makes Taj Mahal the wonder that it is?

You may say the beauty, the grandeur, the lush green lawns, the miniature paintings on its walls, the beautiful structure or the option of watching this 17th century wonder in its different moods as the day gives way to a moonlit night. The answer in fact lies in the essence with which the Taj was conceived.

It is perhaps the power of one beautiful emotion-'Love'- that was instrumental in translating the Taj Mahal into reality. Introduction to the Taj Mahal is incomplete without the mention of Shah Jahan and Mumtaz Mahal.

Taj Mahal was built by the Mughal emperor Shah Jahan in memory of his beloved wife Mumtaz Mahal. The Taj has remained a symbol of love for more than 350 years.

The story of the Taj is, in fact is the story of love. Over the years, the story has been told and re-told innumerable times. Reams and reams have been written and re-written. But such is the charm and everlasting glory of the Taj Mahal that it remains as fresh as morning dew.

Described as "A tear drop on the cheek of time" by the noble laureate Rabindranath Tagore, Taj Mahal is poetry in stone. And it is not the poets and philosophers that are bowled over by the beauty of the Taj, the mausoleum has cast a spell on many head of the states including Bill Clinton, the former President of the United States and General Pervez Musharraf, the President of Pakistan.

A tour to the Taj Mahal is a once in a lifetime experience. One that leaves you with many cherished memories to last a lifetime. With the opening of the Taj Mahal on moonlit lights after 20 long years, a traveller can now watch the Taj in all its glory in the night as well.

For those interested in the history of the Taj Mahal and the story behind this icon of love, here are the bare facts. It took about 20 years and a strong force of 20,000 labourers, engineers and architects to erect the structure. The stones that have been used in building the Taj Mahal were brought from as far away as Tibet and Sri Lanka. Now an interesting fact, which many people are not aware of - the Taj was inspired by the Humayun's tomb in Delhi.

No wonder then, the Taj Mahal is the most sought after destination by a foreign traveller. Apart from the Taj Mahal's timeless appeal, its proximity to the capital of India, Delhi, makes it easily accessible. Agra, the city of the Taj is well connected by road, rail and air transport.

It is about 220 km from the capital of India. Agra is also home to many historical monuments that have left an indelible mark on the sands of time. These monuments sprinkled around Agra include, Fathepur Sikri, Buland Darwaza and Red Fort of Agra.


Saturday, March 30, 2013

Hamari Fakhira__پاک و ھند میں یکساں مقبول ۔۔فاخرہ بتول)






پاک و ھند میں یکساں مقبول ۔۔فاخرہ بتول



جاں کاسودا ھے عشق،جس میں بتول!
اچھے اچھوں کی جان جاتی ھے

ھاں کرؤ تو انا نہیں بچتی

ناں کرؤ تو زبان جاتی ھے


شاعری کے ایوانوں اور شبستانوں میں نا جانے کتنے انمول رتن ،جواہرپارے سجا رکھے ہیں۔ کبھی کبھی اُن حسین پُر نور ہیروں کی طرف بھی نگاہ کر لینی چاہیے۔ اُنہی ہیروں میں ادب و قلم کا بے مثال ہیرا فاخرہ بتول ہے۔
اپنی پُر فکر شاعری کی بدولت، وہ نسوانی آواز قاری کے اذہان کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہے، اُن کے کلام کو سننے کے بعد آدمی غور و فکر کے دریا میں ڈوب جاتا ہے کہ زندگی پانی کا صرف بلبلہ نہیں ہے بلکہ چبھتی ہوئی حقیقت ہے۔ عام فہم اور سیدھے سادے الفاظ میں اتنی کھری اور سچی بات کہہ جاتی 

  ہیں کہ تیر کی طرح دل میں اُتر جاتی ہے۔
دل لگتا نہیں ھے تو کوئی بات تو ھو گی
سب کچھ ھےمرے پاس مگر وہ تو نہیں نا ؟


دامن پہ ترے داغ نہیں ھے، یہ بجا ھے 

پھر تُو ہی بتا کیسا ھے ماتھے پہ پسینہ؟

اشارتاً بھی محبت کا نام تک نہ لیا
بتول، اُس کو خبر پھر بھی ہو گئی ساری


تم آؤ،دیکھو،سراہو،کوئی تو بات کرو
تمھارے واسطے سولہ سنگھار کرتے ھیں


فاخرہ کا یہ بیدار ذہن تخلیقی انا کے سمندر سے، نہ جانے کتنے تاب ناک موتیوں کو اوپر نکال لاتا ہے اور ادب پارے کے ماتھے کو جھومر بخشتا ہے۔ آپ ایک جانب عوام کی پیاری شاعرہ ہی نہیں، بلکہ کتاب و رسائل سے خواص میں بھی مقبول ہیں۔
فاخرہ نے ، اپنے کلام میں سنجیدہ مگر پُر وقار لہجہ لا کر خوبصورتی کے ساتھ کشش پیدا کی ہے۔ کمال کی شخصیت جتنی خوبصورت ہے، اُتنی اُن کی شاعری بھی خوش نُما ہے۔ زندگی سے محبت انسانیت سے پیار آپکی غزلوں کی خصوصیت ہے۔ آپ نے مشاعرے ہے کے سٹیج پر ایک مدت گُزاری ہے مگر، کسی پہلو سے بھی انہوں نے غزل کی بُلندی سے گِرنے نہیں دیا ہے۔ غزل، جس کے بارے میں جانثار اختر کہتے ہیں:

"ہم سے پوچھے کہ غزل کیا ہے، غزل کا فَن کیا ہے
چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی جائے
"

فاخرہ نے غزل میں وہ آگ تو نہیں بھری جس کی طرف اختر نے اشارہ کیا ہے، لیکن اُس کی ظاہری تراش خراش پر قابلِ قدر توجہ دی ہے۔ اس میں ہلکی ہلکی آنچ ہے جس نے اسے نکھار بخشا ہے، اُن کے یہاں برگِ گل کی نزاکت، الفاظ کی تازہ کاری اور معنی کی بلندی ہے، جس سے غزل کا ایسا روپ بکھرتا ہے جو دامنِ نظر کو کھینچتا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ غزل کا مخصوص لب و لہجہ متضاد ڈکشن اور اُس کے مضامین کی رومانوی کیفیت ہی وہ عناصر ہیں جو اُس جواں اور تواں فن کو کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیتے۔
فاخرہ کی غزلوں پر نگاہ ڈالئے تو آپ محسوس کریں گے کہ انہوں نے اُس فن کو نہ صرف اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے بلکہ اُس کی آب و تاب میں اضافہ بھی کیا ہے۔ اسکے حُسن میں چار چاند بھی لگائے ہیں۔ ان کے اشعار میں تازگی و پرکاری بھی ہے اور بے خودی و ہوشیاری بھی۔ وہ زندگی کے شیوہ ٔ ہزار رنگ سے جو کچھ حاصل کرتی ہیں اُن کی خاص معنویت کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ نہ حالات سے گھبراتی ہیں، نہ ٹوٹ کر بکھرتی ہیں۔ وہ سر بلند ہو کر جینا چاہتی ہیں۔ اسی لیے، کہیں بھی رجائیت کا دامن نہیں چھوڑتیں۔ اُن کی غزل کا یہ رجائی پہلو اب اُن کی پہچان بن چکی ہے۔
فاخرہ نے اپنے داخلی کرب اور خارجی مسائل کو اتنے توازن سے پیش کیا ہے جو سامع کے ذہن پر ایک خاص تاثر چھوڑتا ہے۔ نہ اُسے غزل کی غنائیت متاثر ہوتی ہے نہ اُس کا رنگ روپ۔ اگر سماعِ بصیرت سے کام لے تو ہر شعر میں فاخرہ کی شخصیت کا حسن بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اُن کی غزل کے ہر شعر میں محبوب کے حُسن و جمال کی طرح اُن کی اپنی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ اس لیے میں بھی اُن کے حسن پر فدا ہوں۔

یہ چانداکیلا !
فاخرہ صاحبہ کے مجموعہ کلام پر نظر پڑتی ہے، تو محسوس ہوتا ہے کہ ایک ایسی عورت کی کہانی ھے ایسی روداد ہے، جس کے ورق ورق پہ عورت کی حساس طبیعت کے علاوہ احساسات کی تصویریں آویزاں ہیں جو سانس لیتی ہوئی محسوس کر سکتے ہیں۔ وہ ہمارے دل و دماغ کو ایسی منزل سے آشنا کراتی ہیں جہاں ہمارا معاشرہ ہمارا سماج تھوڑی دیر کے لیے دم بخود ہو کر زندگی کی حقیقتوں اور سچائیوں کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے، کیونکہ ایسا ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے۔ ان کے کلام میں ایسی غزلیں بھی ہیں، جو گہری مشق و ریاضت کی اطلاع دیتی ہیں، جن میں معنوی سبک خرامی کے علاوہ تغزل کی چاشنی بھی ہے۔ آپ لفظوں سے کم کھیلیں ہیں بلکہ آپ نے زیادہ تر کلام میں زمانے کا سہارا لے کر اپنے اندر کے درد کو انڈیلا ہے، اُنہوں نے اپنے اندر کی عورت کو دبانے کی کوشش نہیں کی بلکہ، ایمانداری  
 سے اپنے جذبات کو لفظوں کا جامہ پہنایا ہے۔

فاخرہ صاحبہ کے اشعار کو بغور پڑھئے تو، اندازہ لگے گا کہ زمانے کے حادثوں اور تھپیڑے کھا کھا کر منزلیں جیسے طے کی ہوں۔ جس طرح سے آگ میں تپ کر سونا کندن بنتا ہے، کچھ اُسی طرح کے حالات سے گزر کر زمانے کے گرم اور سرد ماحول میں تپ کر کندن بنی ہیں۔ باہر سے ہنسنے ہنسانے والی، پھولوں کی سی نزاکت اور فرشتوں کی سی معصومیت اور تقدس والی فاخرہ اندر سے کتنی ریزہ ریزہ ہیں، جب ہماری نظر اُن کے اشعار پہ پڑی ہے تو یہ احساس ہوا۔ اُن کے اشعار میں کتنے آنسو گھُلے ہوئے ہیں، کتنی حسرتیں اور کتنی آہیں پوشیدہ اور چھپی ہیں، شاعرہ سے بہتر اور کون جان سکتا ہے۔
شعر کہنے کے لیے جس قلم، جس روشنائی، جس دل و دماغ کی ضرورت ہوتی ہے، وہ قلم اور روشنائی فاخرہ صاحب کو قدرت نے عطا کیا ہے۔ آپ نے بچپن سے لے کر جوانی تک کے سارے تجربات کو خیالات کو لفظوں کے شعری لباس پہنا کر اس میں سمو دیئے ہیں۔ اُس کا ایک حساس دل ہی کر سکتا ہے۔
میری سمجھ سے شاعری بھی کوئی بچوں کا کھیل نہیں، نا ہی، شاعری کوئی ایسا آنسو ہے جو ہر ایک کی آنکھ میں مچل اُٹھے، بلکہ شاعری تو وہ چراغ ہے جو کسی کسی کہ دل میں ہی روشن ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ شعر کا لفظ لفظ ہیرے موتی ہوتے ہیں اور انہیں صحیح جگہ پر ٹانکنا اور جوڑنا، سب کے بس کی بات نہیں، بلکہ فاخرہ نے تو ، یہ کمال کر دکھایا بھی ہے۔ اُن کے اس طرح کے اشعار کو دیکھ کر کبھی کبھی، یہ سوچتا ہوں کہ ایسی ریزہ ریزہ عورت نے کیسی یہ کمال کر دکھایا ہے۔
عہدِ حاضر میں اردو غزل کو جو مقبولیت حاصل ہے، وہ عارضی نہیں بلکہ، دائمی ہے۔ غزل کا ہر اچھا شعر اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ غزل کے دو مصرعوں میں اچھا شعر، ایک دنیا رکھ دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ غزل آج بھی زندہ ہے۔ اچھے شاعر کو یہ جاننا چاہئے کہ کیسے لفظوں کے حسن میں اُتر کر عام فہم الفاظ کو برتنے کا فن جانتا ہو اور اُس فن میں مہارت بھی رکھتا ہو۔
اِس تمہید کے مدِ نظر، جب ہم فاخرہ بتول نقوی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کے اشعار میں جا بجا فکر و آگہی کے چراغ روشن نظر آتے ہیں۔ شاید میرے قلم میں طاقت ہی نہیں کہ میں اس شخصیت کی توصیف بیان کر سکوں جو منتخب کائنات ہے،ہر اوصاف سے بلند ہے، ہر فکر و خیالات سے بالاتر ہے، ہر کلام سے اعلیٰ اور کائنات اردو کے چمن میں، کھلا ہوا مخصوص انداز کا ایک پھول ہے، جو ایک نرالے انداز کی مالکہ، ایک انوکھے طرز سے ہر دل پر چھائی ہوئی  

 ہے۔
دنیائے اردو کی یہ شہزادی جو خود کے اندر نسیمِ صبح کی سی نرمی، بجلی جیسی کڑک اور آفتاب کی سی حرارت رکھی ہے، جس کا قلب سمندر سا وسیع، صحرائوں سا پاک اور عظیم صفات کا آئنہ دار ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے نوکِ قلم سے نکلنے والی نگارشات گوہرِ نایاب ہیں۔ آپ کا یہ نا قابلِ فراموش کارنامہ ایک بیش بہا قیمتی ادبی سرمایہ ہے۔ جس سے ادبی ذوق کا ہر فرد، احبابِ سخن اورآنے والی نسلیں فیضیاب  
  ہوتی رہیں گی۔
Books Published :
1.Palken Bheegi Bheegi Si 
2.Chand Ne Badal Orh Lya 
3.Kaho Woh Chand Kesa Tha? 
4.Ab Bhary Shahr Mein Mujhay Dhoondo 
5.Samandar Poochta Ho Ga 
6.Door Mat Nikal Jana 
7.Bhula Dia Na...? 
8.Ghulab Khushboo Bana Gaya Hai 
9.Mohabbat Ki Nahein Tum Ne 
10.Mohabbat Khas Tohfa Hai 
11.Dasht e Tanhai Mein 
12.Shar Aadatein (Tanz o Mizah) 
13.Tumhein Ham Yad Aaeyen Gey 
14.Sargoshi (Columns) 
New Books : 
o    1۔پلکیں بھیگی بھیگی سی

2۔چاند نے بادل اوڑھ لیا

3۔کہو،وہ چاند کیسا تھا؟

4۔اب بھرے شہر میں مجھے ڈھونڈو

5-سمندر پوچھتا ھو گا

6-دور مت نکل جانا

7-بھُلا دیا ناں ؟

8-گُلاب خوشبو بنا گیا ھ
ے
9-محبت کی نہیں تم ن
ے
10-محبت خاص تحفہ ھ
ے
11-دشتِ تنہائی میں (انتخاب)

12-تمھیں ھم یاد آئیں گے

13-شرعادتیں (طنز و مزاح)

14-سرگوشی (کالم)

15۔بچٌےسارے سچٌے (بچوں کے لئ

ے نظمیں)
 
16-اُسے روکتے بھی تو کس لئے؟

17-حسین ع فاتح ھے کربلا کا (حسینی
Fakhira Batool Poetry
کون جانے کہ کیا ضروری ھے
عشق میں تجربہ ضروری ھے

کہہ رہا ھے وفا کرے گا ضرور
اُس کے حق میں دُعا ضروری ھے

اُس نے کہہ تو دیا،دیا نہ جلا
ھم نےبھی کہہ دیا ضروری ھے

ساری دنیا وفا کرے نہ کرے
بس وہ اک بےوفا ضروری ھے؟

تُمکو پاکرخوشی ملی ھے مگر
اب کوئی سانحہ ضروری ھے

یاد رکھنا چلو سزا ہی سہی
بھُول جانا بھی کیا ضروری ھے

ھوش آنے کے واسطے بھی بھلا
کیا کوئی حادثہ ضروری ھے؟

بُتکدے میں ھزار بُت ہی سہی
اِس میں کوئی خُدا ضروری ھے

تم کو واپس بُلا رہا ھے یہ دل
کیا کوئی التجا ضروری ھے؟

جاؤ اب کون روکتا ھے تمھیں
کوئی شکوہ گلہ ضروری ھے؟

پیار کر تو لیا،خطا ہی سہی
کیا کوئی اب سزا ضروری ھےِ

عشق ھے کھیل ابتدا کا بتول!
اِس میں کیا انتہا ضروری ھے؟

(فاخرہ بتول)
دل کی دھڑکن ھے ترجماں کی طرح
دل میں رہتا ھے وہ گُماں کی طرح

کامیابی نہیں ھے سب کے لیے
پیار ھوتا ھے امتحاں کی طرح

کل جو اپنا تھا زندگی کی قسم
آج لگتا ھے وہ جہاں کی طرح

ساتھ اُس کا ملے تو کیسے ملے؟
میں زمیں ھوں وہ آسماں کی طرح

وہ حقیقت ھے یہ غلط بھی نہیں
لگ رہا ھے جو داستاں کی طرح

لوٹ آئے گا وہ کبھی نہ کبھی
یہ یقیں ھے مگر گُماں کی طرح

تم نے بھی کر دیا ھے دل کا لہو؟
تم تو لگتے تھے مہرباں کی طرح

اُسکی آنکھوں سے بے رُخی ھےعیاں
مل رہا ھے جو رازداں کی طرح

در،دریچے یہ کہہ رہے ھیں بتول!
دل ھے خالی سے اک مکاں کی طرح
  (فاخرہ بتول)

( Duniya e Aday office mein  Kiran Rubab( fakhira's sister,a renowned poetess),Himayat Ali Shaayr k baitay aur Fakhira sahiba )

Fakhira Batool Poetry

Socha hota khawb dikhaney se pehle,
Aur kisi ko apna bananey se pehle,

Kuch pal us ko neend mein ghaur se dekho to,
Dheerey dheerey us ko jaganey se pehle,

Soch lo is mein koi qeemti shey hi na ho,
Dil ke sheher ko aag laganey se pehle,

Dekha, to sab tan man raakh ka dhair hua,
Apne dono hath bachaney se pehle,

Socha, rab se us ko maang ke dekhoon to,
Sar sajdey se aaj uthaney se pehle,

Ab pachtaney se bhi kya haasil ho ga,
Socha hota aankh milaney se pehle,

Aao aakhri baar karain hum yaad usey,
Sach much us ko aaj bhulaney se pehle..

Fakhira Batool Poetry

Bhool janey ka to bas ik bahana hoga,
Ke har taur usey yaad to aana hoga,

Koi mausam ho, mehekta rahe, shadaab rahe,
Apni aankhon ko kanwal aesa banana hoga,

Band muthi se jo urr jati hai qismat ki pari,
Iss hatheli main koi chaid* purana hoga,

Aabley* paaon ke mehkain to magar dard na dain,
Dasht mein raat ke daron ko yeh batana hoga,

Zaawiye* us ki nigahon ke barey qaatil hain,
Samne us ke bohat soch ke jana hoga,

Ghaoo* kitna bhi puraana ho, beher’haal usey,
Kachey mausam ki shararat se bachana hoga,

Hath likhne pe mussar, khauf zamaney ka Batool,
Pairr* pe naam koi likh ke mitaana hoga..

(chaid;hole, aabley;skin burn, zaawiye;angles, ghaao;injury, pairr;tree)

Fakhira Batool Poetry

Meri chahat ka sar-e-aam* to charcha na karo,
Kam to pehle bhi nahin aur to ruswaa na karo,

Kabhi jugnu, kabhi taarey, kabhi nargis keh kar,
Tum meri aankhon ko is tarah chairra na karo,

Bhaamp* jaye na kahin dil ki lagi yeh dunyaa,
Yu’n shafaq ban ke mere chehre pe thehra na karo,

Baat choti si bhi afsaana bana deti hai,
Tum kitaabon pe mere naam ko likha na karo,

Hai ibaadat ki tarah naam tumhara bhi mujhe,
Tum saheefey ki tarah tum mujhe socha na karo,

Dil ko bechain sa karti hain tumhari aankhain,
Raat ko der talak tum mujhe socha na karo,

Saamney sab ke kare kis tarah iqraar Batool,
Yu’n sar-e-bazm* to is se yeh taqaaza na karo..

(sar-e-aam;publicly, bhaamp;to have a clue, sar-e-bazm;in a gathering)

Fakhira Batool Poetry

Hai Haqeeqat, Gumaan Thori Hai
Ye Siyaasi Bayaan Thori Hai

Dar Sa Lagta Hai Kiun Nateejay Se
Ishq Hai Imtehaan Thori Hai

Chhorr Kar Chal Dya Hamain Yun Hee
Wo Koi Badgumaan Thori Hai

Teer Ki Ja Gulaab Kiun Na Milain
Zindagi Hai Kamaan Thori Hai

Koi Shikwah Karain Tou Kaisay Karain
Apne Mun Mein Zabaan Thori Hai

Ham Ko Takta Hai Jis Haqaarat Se
TU Koi Aasmaan Thori Hai

Hum Se Milnay Ko Chal Ke Aaye Magar
Is Qadar Meherbaan Thori Hai

Koi Basnay Laga Hai Is Mein “ Batool”
Dil Hai, Khaali Makaan Thori Hai

Dhoop ke roop mein barsaat bhi ho sakti thi
Subah ke dhoke mein siyah raat bhi ho sakti thi
kesi shikwe ko hi buniyad bana kar aate
Es bahane se mulakat bhi ho sakti thi
Khar bheje hai mujhe us ne, tu heraat si hue
Koi chahat bhari soghat bhi ho sakti thi
Be niazi ki nazar se mujhe takny wale
Aap ki nazar-e-aniyaat bhi ho sakti thi
Jald bazi main bhi tum jeet ke aaye ho magar
Es tarah se tu tumien maat bhi ho sakti thi
Be khatar reshmi batoon main uljhane wale
Yeh mohabbat mein chupi ghaat bhi ho sakti thi
Shab se wabasta meri zaat ko karne wale
Mujh se wabsta teri zaat bhi ho sakti thi
Guftagu bhi tu na ho payi kabhi us se Batool
Baaton baaton mein woh ek baat bhi ho sakti thi
khushi bhe ek udasi hai
sunoooo!!
yeh ek haqiqaat hai
tumhari sha’ari ky sary harfoon mein
jigar ka khoon jalta hai
siskatay, bain kertay aur
siskaty, bain krty aur sulagty sary lafzoon sy
tum apnay sha’ar bunty hoo
tumhary shairoon mein
udaasi apnii ankhein choor ker
khud aaina khanoo mein ja kar sar patakhti hai
yoon he dar dar bhataktii hai–
khushi ko bhi kabhi likho golaboon ki kitaboon mein
khushi bhi ek udaasi hai !!!
Hai wohi aasman zameen wohi
Maah o anjum ussi tarah raushan
Kehkashaan ab bhi muskuraati hai
Phool kaleyaan mehak rahi hain yunhi
Baad muddat ke saaray pardesi
Apne apne gharoon ko aaye hain
Har taraf rang-o-bou ka mela hai
Aur tanha mein apne kamre mein
Kab se beta hoon aur soch raha hoon
Jaanay kya baat hai ke ghar mein mere
Jo guzashta barass thee raunaq
Ab woh kaheen bhi nazar nahee aati
Hai fiza mein ek ajeeb sa san’naatta
Haan faqat ek tere chale jaanay se
Aisa mehsoos horaha hai mujhe
Rutt khushi ki har taraf tu aee hai
Sirf chote se mere aangan mein
Eid ab ke baras nahee ai

 http://pegasiworldalbania.wordpress.com/2013/04/10/the-alien-eyes-by-fakhira-batool/
 http://poetrypoem.com/cgi-bin/index.pl?sitename=fakhirabatool&item=home



Fakhira Bataool is one of the prominent contemporary poets in the sub-continent. She was born in a family where she had an opportunity to nourish herself in a literary environment. She got inspiration from her maternal grandfather Syed Ameer Ahmed Shah Bukhari who was a well-known Punjabi and Pothohari poet. 
Her husband Syed Tanveer Abbas Naqvi (Late) was a journalist, columnist, and story-writer; he also wrote some plays for Pakistan Television. 

Her younger sister, Kiran Rubab Naqvi is a promising poetess whose two books have been published. Fakhira Batool did Master in Urdu Lit. from University of the Punjab, Lahore. She has partaken many poetry reading sessions abroad and she has been bestowed with generous appreciation for her poetic talents. She is versatile and adept in sketching novel images; her poetry is replete with unexplored similes and metaphors. As she wants to see the world free of violence, she has used her talents in indicating injustice, and discrimination against womanhood even existing at universal level, caring least for caste and creed. 
Up till now she has authored several books which are: 1. Palken Bheegi Bheegi Si 2. Chand Ne Badal Orh Lya 3. Kaho Woh Chand Kesa Tha? 4. Ab Bhary Shahr Mein Mujhay Dhoondo 5. Samandar Poochta Ho Ga 6. Door Mat Nikal Jana 7. Bhula Dia Na...? 8. Ghulab Khushboo Bana Gaya Hai 9. Mohabbat Ki Nahein Tum Ne 10. Mohabbat Khas Tohfa Hai 11. Dasht e Tanhai Mein and 12. Shar Aadatein (Tanz o Mizah).
 Her poetic journey is still going on, she is in high spirits and determined to achievem ore glories, pray to God Almighty for success, and realization of her dreams.

A Devotee… (An Acrostic)

Fineness combined with all delicacies,
Affects both adamant hearts and minds,
Kneels and bows only before Almighty,
Humility, grace in perfect womanhood,
Incarnated love, sincerity, and fidelity,
Reward and gift to someone fortunate,
Admirable in lovely pose and posture.

Beauty that always reminds its Designer,
Aroma much sweeter than fragrant roses,
Tactful in dealing with impulsive beings,
Open-hearted and with capacious mind,
Orator who ever fought for woman cause,
Lover and devotee of Five Sacred Beings. 

Fakhira Batool
Muhammad Shanazar
Poems by Fakhira Batool

You Forgot Me at Last

In the despised season,
In the dripping drops of blood,
Only awakens sadness.

I read somewhere
Or heard someone,
It happens that this sadness
Being indifferent and heedless
Nips all of sudden,
Delicate buds of memories.

Hearken!
My heart goes through a fear
Lest you should forget me,
Lest it should happen in such a season.
O! My love,
This was that I said to you,
But happened the same
You forgot me at last.

I Have To Say Something


I have to say something,
When you depart, go afar from me,
A dark shawl of depression
From somewhere,
Who knows, how befalls on my head.

Have You Ever Thought


Have you ever thought,
Why the people migrate
Leaving behind their dwellings;
And prefer to leave for the world unexplored.
Have you ever thought
How hundreds of lamps of tears enkindle
On the quivering edges of the lashes.

Let Us Compose a Poem

Let us compose a poem,
In the drizzle of Monsoon,
Or in a small valley,
On the moments,
Which spent accompanying you,
Or
On innocent sentiments,
Or
On your brilliant eyes,
Or
On my quivering eyes,
Let us compose a poem.

Make a Search


Search in the world of eyes,
Yes those eyes,
Where your reflection lives,
Where the moon and the star shimmer,
Where flickers a real lamp of true love,
Beholding of which descends
Brilliance inward and out all around.

Search in the world of eyes,
Perhaps you might find the eyes,
But be heeded,
Lest in search of those eyes,
You should lose your own.

Yes I Am Friendless


Yes, I am friendless,
Yes, he showed me a dream,
Then made me a victim of his tyranny;
When the train of my tears broke,
They brimmed the bowl of my chest;
And when the Sun went asleep,
Someone burnt with out fire.

On all sides around there surges blood,
All move with no gain; but with pain,
Who will make out here the fellow beings?
Here all chatter their own matters,
Everywhere there is helter-skelter,
Ah! Here we all are felons.

Love: A Gift

Love is a gift
For the Special Ones,
It is fragrance of the roses,
Shyness,
Delicacy,
Perplexity,
And tinkle of the petals
Fondness of flower fly,
Silence of the airs;
It contains,
The glimpse of moon,
The shine of stars,
Heat of the sun,
And whisper of the breeze;
Love is a gift,
For the special ones.

The Wall of Sand

If it falls,
Let it fall hundreds of times,
It is useless
To make him understand,
For he shall make the wall of sand.

Sand- made is my home,
The rain is obstinate too,
It seems as if,
This will work a wonder at last.

Separation Became Indispensable


Very brief is the tale of separation,
Strange was my plight,
I was just to step ahead
At the very moment,
Address of the destination
Fell from the hand, and then lost,
At the same moment the fate slept,
While She was about to awaken,
So separation became indispensable.

Defeat

If separation is destined,
Why it is being delayed;
Let us go asunder
At the very moment,
You will close the eyes
At the very moment,
And I shall place my hand
Upon my heart,
And you will say to me,
Detached are the paths,
Asunder are the destinations;
But be patient! Be patient!
And listen to me my love,
If separation is destined,
Why it is being delayed,
We will perform it now,
We will depart very moment.

What Is Love

Love exits since beginning!
Beyond the string of words,
But is a reality.
Love in the firmament of thoughts,
In the guise of clouds,
Always flutters, soars high,
Sometimes contracted into the drops of rain,
Impinges, scatters on the land of heart.
Taking delicacies from the breeze,
And fragrance from the roses,
Colours from the rainbow,
Light from the stars,
Weave a beautiful Anchal,
And from the same Anchal adorns,
Mud-made houses.

Love throws into trials,
Sometimes becoming poetry,
Enhances deference of the words,
Sometimes becoming a tune,
Hums gradually,
It becomes an incarnated eye,
After getting the beloved one,
A strange touch it becomes,
In the alley of the most adored.

Who knows what kind
Of magical utterances it utters,
And hurriedly descends into the close eyes
Of someone with out a knock,
And makes a residence.
Love smiles,
It is a fragrance,
Always abodes in the breath of blossoms,
Such a light it is,
As it turns into moon the dark nights,
And permanent pang it contains,
That has Indescribable tang,
The definition of Love is that it is Love.