Tuesday, September 25, 2012

Lamha


زندگی کے لمحے ایسے ھی گزر جاتے ھیں جیسے کسی کا دل سوز نہاں میں بےمحابا جل جاتا ھے۔اور لمحے اس سفر میں بلکل خاموش آتش کی طرح گویا جل جاتے ھیں۔يعني چپکے چپکے کس طرح جلتے ھیں کہ کسي کو خبر نہ ہوئي۔زندگی کے سفر میں بھی لمحے ایسے ھی گزر جاتے ھے۔
ایک کیفیت ایسی بھی آتی ھے کہ يعني رشک کي آگ ايسي ھوتی کہ معشوق کو دل سے بھلاديا اور اس کا غير سے ملنا ديکھ کر ذوقِ وصل جاتا رھا - بات اس لمحے کی ھی ھے۔ حالنکہ وہ عاشق ھے اور معشوق کو کیسے بھلا سکتا ھے مگر زندگی کا ھر لمحہ اپنے اندر ایک کیفیت رکھتا ھے۔ زندگی کا سفر ایک شہر عنقا کی مانند ھے اس سفر میں ایک آہ پوری ھستی کو نیستی میں بدل دیتی ھے۔ اور مسافر نہ عدم میں ھوتا ھے۔ نہ موجود میں ھوتا ھے نہ معدوم ھوتا ھے،، مسافر کو نہ تو نہ ستائش کي تمنا نہ صلہ کي پرواہ ھوتی ھے۔يعني يہ کہاں ممکن ھے کہ مسافر اپني طبيعت کي گرمی ظاھر کرسکے فقط دشت نوردي کا ذرا خيال کرتاھے کہ صحرا ميں آگ لگ اُٹھتی ھے۔يعني اس سفر میں مسافر مجنوں کي تصوير بھي کھنچتي ہے تو ننگي ہي کھنچتي ہے ، اس حال ميں بھی عشق دُشمن سر و سامان ھے،،صیاد کے ھاتھوں سے نکلا ھوا ایک تیر بھی سفر طے کرتا ھے اسکے بھی پر ھوتے ھیں،اس تیر کا ھدف بھی ایک پر رکھنے والا پرندہ ھوتا ھے۔
گل سے مہک نکلتی ھے اور اپنے مخصوص انداز میں سفر کرتی ھے۔ مگس کا سفر اس گل مہک کا متلاشی ھوتا ھے۔ یعنی گل کا رنگ اور مہک مگس کے سفر سے گزر کر ایک تریاق کا روپ دھارتی ھے۔يعني زخم دل نے بھي کچھ تنگي دل کي تدبير نہ کي اور زخم سے بھي دلِ تنگي کي شکايت دفع نہ ھوئی کہ وھی تير جس سے زخم لگا وہ ميري تنگيءدل سے ايسا سراسيمہ ہوا کہ پھڑکتا ھوا نکلا تير کے پر
ھوتے ہيں اور اُڑتا ھے۔ سب سفر ایسے ھی ھیں۔۔

No comments:

Post a Comment