Tuesday, October 30, 2012

دہشت گرد ہوائیں


یہ دہشت گرد ہوائیں اور یہ بنیاد پرست طوفان


ایک دور تھا جب موسموں کا انتظار ہوا کرتا تھا. مختلف فصلوں کا، پھلوں اور پھولوں کا موسم، برسات، بہار اور خزاں کا موسم. گرمی اور سردی کا موسم. ہر ایک موسم کی اپنی افادیت اور اپنے مسائل. ادب نے بھی اپنے لئے کچھ موسم تجویز کیے، محبتوں کی رتیں، عشق کا موسم تو کبھی ہجر و وصال کا موسم. 
سماجی تقریبات اور مواقعوں کو بھی موسم سے جوڑ دیا گیا.
  شادیوں کا موسم، کھیل کود کا اور بیماریوں کا موسم. پھر انسان نے کچھ موسموں کو تہواروں سے جوڑ دیا. کچھ اور ترقی یافتہ ہوا تو ایک اور موسم کا اضافہ کر لیا اور اس برقی دور میں خبروں کا موسم بھی آنے جانے لگا. اس موسم نے بقیہ تمام موسموں پراسقدرفوقیت حاصل کرلی کہ انسان کے ذہن پر اب یہی حاوی رہنے لگا. بلکہ تمام موسم خبر کے زیر اثر آتے چلے گئے. ذرائع ابلاغ افق بن کر سارے عالم پر چھاتا چلا گیا اور خبریں آندھی اور طوفان بن کر آنے اور جانے لگی. کبھی خبروں کی برسات ہونے لگی تو کبھی خبریں آگ برسانے لگیں، کہیں اشتہار بنکر خبریں انسان کا دل للچانے لگی تو کہیں شرمسارکرنے لگی.
 الغرض مختلف شکلوں میں مختلف خبریں اور سب کے الگ الگ موسم. خبریں کبھی بیٹھے بٹھائے توکبھی بیٹھے بیٹھے ہنسانے اور رلانے لگی، کسی کو دیوانہ کر گئی تو کسی کو فرزانہ، کسی کو بدنام تو کسی کو نام اوردام سے نوازتے چلی گئی، کبھی سنی سنائی آفتوں کو دیکھی دکھائی بناتی چلی گئی تو کبھی ان دیکھی آفتوں کو دیدہ زیب کر دیا، اور کبھی بن بلائی آفتوں سے رشتہ بھی کرلیا. الغرض خبر نے انسان کو ایک عالم سے با خبر کر دیا. یہ اور بات کہ وہ عالم بالا سے بے خبر ہوتا چلا گیا اور اسی کے ساتھ ساتھ اپنے انجام سےبھی. اسے پتہ نہیں کہ اب انجام کا عالم کیا ہوگا.

ہر ایک خبر سے با خبر امریکہ بھی اپنے انجام سے بے خبر ہے. جہاں طوفانوں کا موسم آتا ہے، اور اکثر و بیشتر آتا ہے لیکن خبروں کا موسم ہمیشہ دیگر موسموں پر حاوی رہتا ہے. لیکن اب کی بار امریکہ میں ایسا نہ ہوسکا، اور طوفان خبروں پر غالب نظر آیا. اب کی بار انکے چراغ سورج کے ہم نسب نہیں نکلے اور نہ ہی انکی ایٹمی توانائیاں. پہلے اینڈریو پھر کیٹرینا اور اب سینڈی. ہمارے دوست جناب شیفتہ تو سینڈی کو بہ معنی چٹیا کے لے رہے تھے. کہنے لگے امریکہ اب سینڈی لگا رہا ہے. کہیں سی آئی ہے توکہیں پو پھٹ رہی ہے اور کہیں شب تاریک ہے. اب انہیں کوئی قاعدہ یاد نہیں رہا.

 اک امریکی سیاسی فلسفی کہہ رہا تھا یہ حملہ ہے ہماری جمہوریت پر، حکومت پر، ہماری تہذیب پر، "ہماری تہذیب سے تم خار کھاتے ہو". لیجیے جناب تہذیب ہو ئی نہ ہوئی حیوانیت ہو گئی، اگر یہ تہذیب ہے تو چنگیزی کیا ہے. فلسفی یہ بھی کہہ رہا تھا کہ سینڈی کو امریکہ میں کسی قاعدہ کے تحت بھیجا گیا ہے، کسی مکر و سازش کے تحت بھیجا گیا ہے. سچ کہا اس نے، مکر و مکر اللہ. اب گراونڈ زیرو تلاش کرتے رہیے. مو ساد کی خفیہ معلومات پر انحصار کیجیے اور سی آئی اے سے پوچھیے کہ بھلا وہ اب کیا سی آئی ہے اور کیا پھاڑ آ ئی ہے. پوچھیے تو ذرا سینڈی کے پیچھے کون ہے اور کیوں ہے. اور ذرا اپنے ہونہار ذرائع ابلاغ کو بھی بتائیے کہ وہ بھی اپنی تفتیش کا اور اپنے قیاسات کا تخمینہ لگائے. سائینس دانوں اور ماہر موسمیات کی دلیلوں کو بھی پرکھ لیجیے. اور تمام علت و معلول کے بخیے ادھیڑنے کے بعد مآل آخر اپنے روحانی پیشواؤں سے معلوم کر لیجیے کے یہ دہشت گرد ہوائیں کیوں چل رہی ہیں.
  تمہاری قوم نے ویسے بھی مذہب کو معمہ بنا رکھا ہے اور روحانیت کی ہجہ بھی تمہیں نہیں پتہ. تمہارے اہل فکر و نظر کو بہت شوق ہے قیاس آرائی کا. تم اینڈریو کو الیانڈریو کیوں نہیں کرسکے اور اسے باریش بنا کر اسکے سر ایک امامہ کیوں نہیں رکھ سکے، کیٹرینا کو القطرینا آپ کیوں نہ بنا سکے اور اسے حجاب کیوں نہیں پہنا سکے. کوئی سینڈی السینڈی بھی ہو سکتا ہے جسے بہ آسانی بندوق بردار یا راکٹ بردار بنایا جا سکتا ہے، کمپیوٹر میں یہ کام درجہ پنجم کا طالب علم بھی کر سکتا ہے. یہ سب ہوائیں امریکہ میں دھڑلے سے دہشت گردی کر رہی ہیں اور کون سے ورلڈ آڈر کے تحت کام کر رہی ہیں انہیں خبر ہی نہیں، وہ جو مریخ تک کی خبر لیتے رہتے ہیں اور زہرہ کو بھی نہیں بخشتے . اب ان بنیاد پرست طوفانوں کے سامنے امریکہ کی طاقت کے بل کیوں ڈھلیے پڑگئے ہیں.
 اب یہ ان طوفانوں کے تعاقب میں کیوں نہیں جا تے. انکے ڈرون ان ہواؤں سے اتنے کیوں ڈررہے ہیں. دل کو بہلانے تم نے ''اسٹروم چیزرز" فلمیں ضرور بنا ڈالی. ٹیکنولوجی اور ایٹمی اجارہ داری کا تمہارا سارا رعب اور زعم ان دہشت گرد ہواؤں کے سامنے ٹھنڈا پڑ گیا. غیر ممالک اور خاصکر مسلم ممالک کے نیوکلیائی پلانٹ سے توانائی کے حصول کو تم مختلف سازشوں سے روکنا چاہتے تھے، اب تمھارے نیو کلیائی پلانٹ جو دنیا میں دہشت پھیلانے کے لئے بنائے گئے تھے ان دہشت گرد ہواؤں کی زد پر ہیں. انہیں اسلام اور مسلمانوں سے کیوں منسوب نہیں کرتے. ذرائع ابلاغ کو کو ئی تنظیم کا نام اب یاد کیوں نہیں رہا. اس طوفان کو اللہ اور اسلام سے کیوں نہیں جوڑتے.

 تمھارے روکی، ہلک اور سوپر مین کہاں ہیں. وہ تمہاری فکشن سے بھری جھوٹی دنیا اور وہ تمہارا بے پرکی اڑانا، اور وہ تمھارے اخباری اور صحافتی ہتھکنڈے اب سب کہاں دھرے رہ گئے. رومنی کی رونی صورت اور براق کی برقیت بھی ان دہشت گرد ہواؤں کا رخ نہیں موڑ سکی. تمہاری حماقت کی حد تک معصوم عوام احتجاج کیوں نہیں کرتی کہ ان دہشت گرد ہواؤں اور بنیاد پرست طوفانوں پر حملہ کیا جائے. تمہاری وہ محبوبہ، تمہاری ایکونومی، جس کے عشق میں تمہاری اکثر نسلیں پاگل ہو چکی ہیں، مادیت پرست اور مطلب پرست ہو چکی ہیں، سب ملکراپنی محبوبہ کو ان دہشت گرد ہواؤں سے کیوں نہیں بچا لیتے، جو دامن تار تار کرنے پر تلی ہیں، وہ بنیاد پرست سینڈی تمہاری محبوبہ کو برہنہ کر تگنی کا ناچ نچانے پر تلا ہے.

 کہاں ہے تمہارا وہ غمگسار اسرائیل جسکے تم ڈاکیے بنے پھرتے ہو، کہاں ہے وہ دولت فراعنہ اور دفینہ قارون جسکے بل بوتے پر تمہاری محبوبہ ساری دنیا میں ناز نخرے دکھاتی پھرتی ہے. جسکے آسرے پر تم الکشن لڑتے ہو، جسکے سہارے تم قلندروں اور فقیروں کو ستاتے ہو، ان پر ظلم ڈھاتے ہو. اپنی تیسرے درجہ کی تہذیب کو تیسری دنیا کے سر منڈھنا چاہتے ہو، ساری دنیا پر حکومت کرنے چلے ہو ، روحوں کا اغوا کر نے اور افکار کی عصمت دری کرنے چلے ہو. اس اصل دہشت گرد سینڈی کو پکڑ کر بتاؤ تو جانیں.

اللہ تعالی امریکہ کے معصوم عوام کی حفاظت کرے اور انکے سرکش اور ظالم اہل اقتدار و افکار کو اور انکے ہم پیالہ و ہم نوالہ کو مع انکی طاقتوں کے نیست و نابود کرے. آمین

No comments:

Post a Comment