کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا کی سب سے قدیم تعلیمی درس گاہ
کون سی ہے، جہاں آج بھی تعلیم دی جاتی ہے؟
مراکش کے شہر فاس میں واقع جامعہ قرویین۔ ساڑھے گیارہ سو سالوں سے قائم اس جامعہ نے قرون وسطیٰ میں یورپ اور اسلامی دنیا کے درمیان ثقافتی و تعلیمی تعلقات میں اہم کردار ادا کیا۔ اس جامعہ سے تعلیم حاصل کرنے والی اہم شخصیات میں معروف جغرافیہ دان محمد الادریسی، مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون اور یورپ کو عربی اعداد اور صفر کا نظریہ دینے والے پوپ سلوسٹر ثانی شامل ہیں۔
یہ مسجد و جامعہ فہری خاندان کی ایک خاتون فاطمہ الفہری نے 859ء میں قائم کی۔ فاطمہ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور ورثے میں ملنے والی تمام تر دولت کو مسجد و درس گاہ کے قیام کے عظیم مقصد پر خرچ کیا۔ انہوں نے مسجد کو اپنے آبائی شہر قیروان کے نام پر مسجد قیرویین کا نام دیا۔ قیروان شہر موجودہ تونس میں ہے۔
فاطمہ اور ان کی بہن مریم کے اس عظیم کارنامے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں میں عورتیں کس قدر ذی فہم اور باشعور تھیں اور مسلم تہذیب کی تعمیر میں ان کا کتنا بڑا کردار اور قربانیاں رہی ہیں۔
بعد ازاں وقتاً فوقتاً مسجد کی توسیع کے کام میں حصہ لینے والے مشہور حکمرانوں میں اندلس میں اموی خلافت کے عظیم حکمران عبد الرحمٰن الثالث اور مرابطین کے عظیم فاتح جرنیل یوسف بن تاشفین کے صاحبزادے علی بن یوسف شامل رہے۔
بنو مرین کے سلطان ابو فارس نے 1349ء میں مسجد کے ساتھ کتب خانے کا اضافہ کیا اور یہاں آج رکھے گئے چند نادر ترین قلمی نسخوں میں امام مالک کی مؤطا مالک، سیرت ابن اسحاق اور ابن خلدون کی کتاب العبر شامل ہیں۔
مراکش کے شہر فاس میں واقع جامعہ قرویین۔ ساڑھے گیارہ سو سالوں سے قائم اس جامعہ نے قرون وسطیٰ میں یورپ اور اسلامی دنیا کے درمیان ثقافتی و تعلیمی تعلقات میں اہم کردار ادا کیا۔ اس جامعہ سے تعلیم حاصل کرنے والی اہم شخصیات میں معروف جغرافیہ دان محمد الادریسی، مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون اور یورپ کو عربی اعداد اور صفر کا نظریہ دینے والے پوپ سلوسٹر ثانی شامل ہیں۔
یہ مسجد و جامعہ فہری خاندان کی ایک خاتون فاطمہ الفہری نے 859ء میں قائم کی۔ فاطمہ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور ورثے میں ملنے والی تمام تر دولت کو مسجد و درس گاہ کے قیام کے عظیم مقصد پر خرچ کیا۔ انہوں نے مسجد کو اپنے آبائی شہر قیروان کے نام پر مسجد قیرویین کا نام دیا۔ قیروان شہر موجودہ تونس میں ہے۔
فاطمہ اور ان کی بہن مریم کے اس عظیم کارنامے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں میں عورتیں کس قدر ذی فہم اور باشعور تھیں اور مسلم تہذیب کی تعمیر میں ان کا کتنا بڑا کردار اور قربانیاں رہی ہیں۔
بعد ازاں وقتاً فوقتاً مسجد کی توسیع کے کام میں حصہ لینے والے مشہور حکمرانوں میں اندلس میں اموی خلافت کے عظیم حکمران عبد الرحمٰن الثالث اور مرابطین کے عظیم فاتح جرنیل یوسف بن تاشفین کے صاحبزادے علی بن یوسف شامل رہے۔
بنو مرین کے سلطان ابو فارس نے 1349ء میں مسجد کے ساتھ کتب خانے کا اضافہ کیا اور یہاں آج رکھے گئے چند نادر ترین قلمی نسخوں میں امام مالک کی مؤطا مالک، سیرت ابن اسحاق اور ابن خلدون کی کتاب العبر شامل ہیں۔
No comments:
Post a Comment