معجزہ اور قرآن
اسلامی تاریخ ہمیشہ ان تمام تصورات کو جو پہلے سے متعین کردہ فریم سے نکلنے کی کوشش کرتے تھے ضائع کرتی رہی جس کی وجہ سے بہت سارے مُتون کا انجام نامعلوم رہا جبکہ ان کے مصنفین کا انجام قتل، قید اور ملک بدری کے ما بین جھولتا رہا، تاہم تمام وجوہات مذہبی نہیں تھیں جس قدر کہ سیاسی تھیں جو مذہب کی آڑ لیے ہوئے تھیں کیونکہ جیسا کہ شہرستانی کہتے ہیں کہ اسلام میں تلوار ہمیشہ مذہب کی بنیاد پر نہیں اُٹھائی گئی.
اگر مسلمان متکلمین اور فلسفیوں کو پڑٖھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے زیرِ بحث موضوعات بہت جرات مندانہ تھے، انہوں نے ایسے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جن پر آج کے دور میں بات کرنا غالب کے بقول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، دیگر موضوعات کی طرح قرآن کا معجزہ بھی ایک ایسا شجرِ ممنوعہ تھا جسے یہ مسلمان مفکرین زیرِ بحث لائے، اگرچہ اسلامی تاریخ اسے زندقہ قرار دیتی ہے مگر حقیقتِ حال یہ ہے کہ یہ لوگ ان الزامات سے بہت دور اور مبرا تھے کیونکہ وہ اس قدر گہرے موضوعات پر بحث کرتے تھے جو فقہائے دین کے احاطہ فہم سے باہر تھے یہی وجہ ہے کہ ان فقہاء نے اسے اسلامی مملکت کی آئیڈیالوجی کی خدمت کے لیے استعمال کیا.
(1) ابن الرواندی قرآن پر کہتے ہیں: ” اس میں کوئی ممانعت نہیں کہ فصاحت میں عرب کا کوئی قبیلہ دیگر قبائل سے بڑھ کر ہو، اور اس قبیلے کا کوئی ایک گروہ باقی قبیلے سے زیادہ فصاحت رکھتا ہو، اور اس گروہ میں کوئی ایک شخص باقیوں سے زیادہ فصیح ہو… اب فرض کریں کہ اس کی فصاحت کی شہرت سارے عرب میں پھیل گئی تو عجم پر اس کا کیا حکم ہے جو زبان نہیں جانتے اور ان پر اس کی کیا حجت ہے؟! ”
اسی سیاق میں ابن الرواندی آگے لکھتے ہیں: ” تمہارا دعوی ہے کہ معجزہ قائم اور موجود ہے جو کہ قرآن ہے، اور کہتے ہو کہ ” جسے انکار ہو وہ اس کے جیسا لاکر دکھائے ” تو اگر تم برتر کلام چاہتے ہو تو ہم بلغاء، فصحاء اور شعراء کے کلام سے اس کے جیسا ہزار لا سکتے ہیں جس کے الفاظ اس سے زیادہ رواں، معانی میں بے تحاشا مختصر، ادائیگی اور عبارت میں بلیغ اور تناسق میں باکمال ہوگا، تو اگر تمہیں یہ منظور نہیں تو ہم تم سے وہی مطالبہ کرتے ہیں جو تم ہم سے کرتے ہو ” ابن الرواندی کی بات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہر متن اور مصنف کا اپنا ایک اسلوبی پہلو ہوتا ہے جو اسے باقی لکھاریوں اور تخلیق کاروں سے ممتاز کرتا ہے
یہی وجہ ہے کہ ہر شاعر یا مصنف کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے جس کی نقل کرنا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے، یوں یہ چیلنج دے کر وہ بتا رہے ہیں کہ یہی حجت حریف پر بھی لاگو ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی انسان کسی دوسرے کے جیسی کوئی چیز نہیں لاسکتا (2) کیونکہ تخلیق کی مثال جیسا کہ جابری کہتے ہیں ڈرائینگ، مجسمہ سازی، فلسفہ اور فکر کی طرح ہے جس کی نقل نہیں کی جاسکتی کیونکہ تعریف میں نقل ” تخلیق ” نہیں ہے (3).
ابو بکر الرازی کا خیال ہے کہ اگر کسی کتاب میں کوئی معجزہ ہے تو اسے دینی کتابوں میں نہیں بلکہ علمی کتابوں میں ہونا چاہیے، اس ضمن میں وہ کہتے ہیں: ” واللہ اگر کسی کتاب کا حجت ہونا واجب ہوتا تو وہ انجنیئرنگ اور ریاضی کی کتابیں ہوتیں جن سے افلاک اور سیاروں کی حرکت کا علم حاصل ہوتا ہے، اور منطق اور طب کی کتابیں جن میں بدن کی منفعت کے علوم ہیں یہ کتابیں ایسی کتابوں سے زیادہ حجت کی حقدار ہیں جن سے نا تو کوئی نفع ہوتا ہے نا نقصان اور نا ہی کوئی مستور (پوشیدہ) ظاہر ہوتا ہے (یعنی قرآن) ” وہ مزید لکھتے ہیں: ” ہم اس سے بہتر شعر، بلیغ خطبے اور خوبصورت رسائل لا سکتے ہیں جو اس سے زیادہ فصیح اور باکمال ہوں گے، قرآن میں ایسا کوئی فضل نہیں ہے، یہ محض کلام کے باب میں ہے ”.
قرآنی معجزے کا تعلق دو معاملات سے رہا، ایک نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ان پڑھ ہونا اور دوسرا اسے تقدس کی چادر میں لپیٹ کر ایک اعلی فنی قیمت دینے کی کوشش کرنا تاہم امیت کا مسئلہ زیادہ اہم رہا کیونکہ اسے متن کی قدر یا ویلیو بڑھانے کے لیے ” استعمال ” کیا گیا تاکہ اسے انسانی تصنیف نہ کہا جائے
تاہم اس زمانے میں امیت کا مطلب ان پڑھ ہونا نہیں تھا اور نا ہی ان پڑھ ہونا کوئی معجزے کی علامت ہے، بلکہ اس کے برعکس پڑھنا لکھنا بلیغ کلام کہنے کے لیے کوئی شرط نہیں ہے کیونکہ بلیغ باتیں پڑھنے لکھنے سے مشروط نہیں ہیں، عرب کے شعراء اور خطیب بغیر کسی سابقہ تیاری کے شعر کہتے اور خطبے پڑھتے تھے (13) یوں ایک زبانی ثقافت میں جہاں پڑھنے لکھنے کا زیادہ رواج نہیں تھا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کوئی استثناء حاصل نہیں ہے، تو پھر امیت سے معجزے کا قیاس کیسے کیا جائے؟
No comments:
Post a Comment