Tuesday, October 16, 2012

Hajj

    • عشرہ ذی الحجہ کے فضائل:
      ================

      ﷲ رب العالمین نے کچھ مہینوں کوکچھ مہینوں پر، کچھ دنوں کو کچھ دنوں پر، کچھ راتوں کو کچھ راتوں پر ،اور کچھ وقتوں کو کچھ وقتوں پرفضیلت اور بزرگی عطا فرمائی ہے ، رمضان المبارک کا مہینہ تمام مہینوں میں سب سے زیادہ افضل واشرف ہے عرفہ کا دن تمام دنوں میں سب سے زیادہ با برکت ہے تو شب قدر تمام راتوں میں سب سے زیادہ خیر وبرکت والی رات ہے ، اسی طرح عشروں میں ، رمضان المبارک کا آخری عشرہ ، ذی الحجہ کا پہلا عشرہ وغیرہ یہ سب خیر وبرکت سے بھر پور عشرے ہیں ۔

      رب العالمین کی جانب سے نیکیوں کی یہ تنزیلات اسلئے ہیں تاکہ اسکے بندے نیکیوں کے اس موسم کو غنیمت جانیں ، اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرکے اجر عظیم حاصل کرلیں۔ان مبارک عشروں میں سے ایک ، عشرہ ذی الحجہ ہے ، یہ وہ عشرہ ہے جس کے دنوں کی قسم ﷲ رب العالمین نے قرآن مجید میں کھائی ہے ، فرمان باری ہے :” فجر کے وقت کی قسم ، اور (ذی الحجہ کی ابتدائی) دس راتوں کی قسم “ ( فجر : ۱۔۲)

      ﷲ تعالیٰ نے اس میں سب سے پہلے فجر کی قسم کھائی ہے ، جس سے مراد اکثر لوگوں کے نزدیک ہر دن کی فجر کا وقت ہے ، لیکن قتادہ نے اس سے محرم کی پہلی تاریخ کی فجر مراد لی ہے ، مجاہد نے قربانی کے دن کی فجر بتلایا ہے ، اور ضحاک نے ذی الحجہ کا پہلا دن مراد لیا ہے اور بعض مفسرین نے اس سے عرفہ کے دن کی فجر مراد لی ہے ۔

      دوسری آیت میں دس راتوں کی قسم کھائی گئی ہے ، جس کے متعلق امام ابن کثیر نے سیدنا عبد ﷲ بن عباسص کا قول نقل کیا ہے کہ وہ عشرہ ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں ۔( تفسیر ابن کثیر )

      سیدنا عبد ﷲ بن عباس رضي الله عنه کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ”عام دنوں کی بنسبت عشرہ ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں نیک اعمال ﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہیں ۔ صحابہ کرام نے پوچھا : یا رسول ﷲ ! کیا عام دنوں میں جہاد فی سبیل ﷲ سے بھی زیادہ محبوب ہیں ؟ آپ ا نے جواب دیا : ہاں ! راہ الٰہی میںجہاد بھی اتنا محبوب نہیں ، سوائے اسکے کہ کوئی شخص راہ جہاد میں اپنا مال اور جان لے کر نکلا اور پھر واپس پلٹ کر نہیں آیا( یعنی شہید ہوگیا )-( بخاری )

      شیخ ا لاسلام امام ابن تیمیہ سے پوچھا گیا :” کیا رمضان المبارک کا آخری عشرہ زیادہ مبارک ہے یا ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ؟ آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا : ”رمضان المبارک کے آخری عشرے کی راتیں ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی راتوں سے زیادہ افضل ہیں ، اس لےے کہ اس میں لیلة القدر ہے جو تمام راتوں کی سردار ہے ، اور ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے دس دن ،رمضان المبارک کے آخری عشرے کے دس دنوں سے زیادہ مبارک ہیں ، اس ليے کہ ان دنوں میں یوم عرفہ واقع ہے ،جو کہ تمام دنوں میں سب سے زیادہ افضل واشرف ہے “۔

      ( مجموع الفتاویٰ )

      حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : ”عشرہ ذی الحجہ کا دیگر عشروں سے ممتاز ہونے کا جو سبب ظاہر ہے‘ وہ یہ ہے کہ اس عشرہ میں اتنی عبادتیں ، جیسے نماز ، روزہ ، صدقہ وخیرات ، حج و عمرہ اور قربانی وغیرہ جمع ہوگئیں کہ دوسرے عشروں میں ان تمام عبادتوں کا بیک وقت جمع ہونا ناممکن ہے“۔( فتح الباری : 2/458)

      رسول ﷲ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :” جو ہلال ذی الحجہ دیکھ لے ، اور وہ قربانی کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں میں سے کچھ بھی نہ تراشے، جب تک کہ قربانی نہ کرلے“ ۔ ( مسلم )

      اس عشرے میں مستحب اعمال:
      ===================

      فرائض اور سنن موکدہ کی پابندی اور نوافل کی بکثرت ادائیگی وہ اعمال ہیں جو کہ ﷲ تعالیٰ سے تقرب کا بڑا ذریعہ ہیں ، اس لےے کہ رسول ﷲ کا فرمان ہے : ” تم ﷲ کے لےے جو بھی سجدہ کرو گے اس سے ﷲ تعالیٰ تمہےں ایک نیکی عطا کرتا، ایک درجہ بڑھا دیتا ہے اور اس کی وجہ سے تمہارا ایک گناہ مٹا دیتا ہے“ ۔ (احمد )
      اور یہ تمام سال کے لےے عام ہے ۔

      کثرت سے ﷲ تعالیٰ کا ذکر اور تسبیح ، تحمید ، تہلیل اور تکبیرکرتے رہنا چاہيے،جیسا کہ سیدنا عبد ﷲ بن عباسص رسول اکرم ا سے روایت کرتے ہیں : ”ﷲ تعالیٰ کے پاس اس عشرہ ذی الحجہ سے زیادہ عظیم دن اور کوئی نہیں ، اور نہ ہی اسے ان دنوں میں نیک اعمال جس قدر محبوب ہیں اور کسی دنوں میں ہیں ، اس لےے تم ان دنوں میں کثرت سے لا الٰہ الاّ ﷲ ، ﷲ اکبر، الحمد ﷲ پڑھا کرو“ ۔ ( احمد )

      امام بخاری فرماتے ہیں :

      سیدنا عبد ﷲ بن عمررضي الله عنه اور سیدنا ابو ہریرہ رضي الله عنه عشرہ ذی الحجہ میں مدینہ منورہ کے بازاروں میں تکبیرات اَللّٰہُ اَکبَرُ اَللّٰہُ اَکبَرُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ُ اَللّٰہ ُ اَکبَرُ اللّٰہُ اَکبَرُ وَلِلّٰہِ الحَمدُ کہتے ہوئے نکلتے ، اور ان کی تکبیر کی آوا ز سن کر دوسرے لوگ بھی زور زورسے تکبیر کہا کرتے تھے ۔ سیدنا عمر بن خطاب ص منٰی میں اپنے خیمے سے ” ﷲ اکبر “کی صدا لگاتے، اور مسجد والے بھی انکی آواز سن کر تکبیریں کہتے ، بازار والے بھی انکا ساتھ دیتے ، یہاں تک کہ تکبیر کی صداوں سے سارا منٰی گونج اٹھتا ۔ سیدنا عبد ﷲ بن عمرص ان سارے ایام میں منٰی میں نمازوں کے بعد اپنے بستر خیمہ ، مجلس اور چلتے پھرتے ہوئے بھی تکبیریں کہتے رہتے تھے ۔ ( بخاری )

      نفلی عبادات کی اہمیت:
      ==============

      ان دنوں میں نفلی عبادتیں بکثرت کرنی چاہےے ، اس سے بندہ ﷲ کا مقرب بن جاتا ہے ، جیسا کہ حدیث قدسی میں آیا ہوا ہے کہ
      ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : ”ميرا بندہ جن عبادات کے ذريعے ميرا قرب حاصل کرتا ہے ان سب ميں سے مجھے وہ عبادات زيادہ پسند ہيں جو ميں نے اپنے بندے پر فرض کيں‘ ميرا بندہ نفلی عبادات کے ذريعے میرے اتنا قريب ہوجاتا ہے کہ مں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں“۔ (بخاری )

      حضرت ابوسعيد خدری رضي الله عنه سے روايت ہے کہ رسول ﷲا نے فرمايا :” جو شخص ﷲ کی راہ ميں ايک روزہ رکھتا ہے ﷲ تعالیٰ اسکے بدلے اسکے اور جہنم کے درميان ستر سال کا فاصلہ پيدا فرما ديتے ہيں“ ۔ ( متفق عليہ )

      یوم عرفہ کے روزے کی فضیلت:
      ==================

      ''یوم عرفہ اس دن کو کہتے ہیں جس دن حاجی میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں ، اس دن غیرحاجیوں کے ليے روزہ رکھنا بہت اجروثواب کا باعث ہے ''۔

      سیدنا ابوقتادہ رضي الله عنه سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”یوم عرفہ کے روزہ کے متعلق مجھے ﷲ سے امید ہے کہ وہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کے لےے کفارہ بن جائے گا “ ۔ ( مسلم)

No comments:

Post a Comment