Wednesday, October 3, 2012

تھامس جیفرسن کا قرآن



گزشتہ سال کے اوائل میں عزیز بلاگر عدنان مسعود نے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی شہرۂ آفاق لائبریری آف کانگریس کے سفر اور وہاں امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن کے ذاتی کتب خانے کا حصہ رہنے والے قرآن مجید کے ایک قدیم نسخے کے بارے میں تحریر لکھی۔ 18 ویں صدی کے اوائل میں برطانوی مترجم جارج سیل کی جانب سے کیا گیا یہ ترجمہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ان اولین نسخوں میں شامل ہے جنہیں براہ راست عربی سے ترجمہ کیا گیا۔ اس سے قبل تمام انگریزی ترجمے فرانسیسی و لاطینی زبانوں سے کیے گئے تھے۔ خیر، عدنان بھائی کی اس دلچسپ داستان کے پیچھے قرآن مجید کے اس تاریخی نسخے کے بارے میں ایک طویل کہانی ہے جو گزشتہ سال سعودی ارامکو ورلڈ جریدے میں شایع ہوئی۔ اس مضمون کو پڑھتے ہی ترجمہ کرنے کی خواہش پیدا ہوئی تاکہ انگریزی سے نابلد افراد تک اس قیمتی معلومات کو پہنچایا جائے جو لکھاری سباستین آر پرانژ کے قلم سے بہت خوبی سے نکلی ہیں۔ سباتین یونیورسٹی آف لندن کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹیڈیز سے تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کر چکے ہیں۔

بہرحال، میں اپنے بلاگ پر توجہ کم ہونے کی وجہ اس تحریر کو بروقت نذرِ قارئین نہ کر سکا، ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا، اور ابھی چند روز قبل جب کچھ فرصت ملی تو مجھے اپنی کتب میں ارامکو میگزین کا وہی شمارہ نظر آ گیا، جس کے سرورق پر جلی حروف میں The Koran, commonly called The Alcoran of Mohammed جگمگا رہا تھا۔ فوری طور پر تمام کاموں کو چھوڑ کر اس کے ترجمے کا آغاز کیا۔


     تھامس جیفرسن کا قرآن
تحریر: سباستین آر پرانژ
ترجمہ و تلخیص: ابوشامل
واشنگٹن ڈی سی میں امریکی پارلیمان کے سامنے جیفرسن بلڈنگ واقع ہے، دنیا کے سب سے بڑے کتب خانے ‘لائبریری آف کانگریس’ کی مرکزی عمارت، جس میں 140 ملین سے زائد کتب و دیگر مطبوعہ چیزیں محفوظ ہیں۔ اپنے جدید کلاسیکی بیرونی حصے، تانبےسے ملمع زدہ گنبد اور سنگ مر مر کے ایوانوں کے ساتھ یہ پرشکوہ عمارت تھامس جیفرسن سے موسوم ہے، ریاستہائے متحدہ امریکہ کے “بانیوں” میں سے ایک، 1776ء کے اعلان آزادی کے اہم ترین مولفین میں سے ایک اور 1801ء سے 1809ء تک ایک نئی جمہوریہ کے تیسرے صدر۔ لیکن ان کا نام اس کتب خانے کے قیام میں بانی کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ بطور صدر انہوں نے ادارے کو قانونی حیثیت دی اور 1814ء میں اینگلو-امریکی جنگ کے دوران برطانوی سپاہیوں کی جانب سے آگ لگائے جانے کے باعث کتب خانے کے 3 ہزار جلدوں کے مجموعے کے ضایع ہونے کے بعد انہوں نے اپنے کتابوں کے ذخیرے کا تمام یا کچھ حصہ اس نقصان کے ازالے کے لیے فراہم کیا۔

اس تاریخی نسخے کی ایک تصویر، برادر عدنان مسعود کے کیمرے سے
جیفرسن کی کتب خانے کو عطیہ کردہ تقریباً 6500 کتب میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کا ایک دو جلدوں پر مشتمل ترجمہ بھی شامل ہیں۔ پہلے جیفرسن کے نجی کتب خانے اور بعد ازاں لائبریری آف کانگریس میں اس مجموعے کی موجودگی اس سوال کو پیدا کرتی ہے کہ جیفرسن نے یہ کتاب کیوں خریدی، وہ اسے کس استعمال میں لائے، اور وہ اسے اک نئی قوم کے ذخیرۂ معلومات میں کیوں لائے۔
دور جدید کے چند مبصرین کے دعووں کے مطابق جیفرسن نے قرآن مجید کا یہ نسخہ 1780ء کی دہائی میں امریکہ اور شمالی افریقہ کی “بربر ریاستوں” – موجودہ مراکش، الجزائر، تونس اور لیبیا- کے ساتھ تنازع کی وجہ سے خریدا تھا۔ یہ ایسا تنازع تھا جس کا جیفرسن نے قریبی مشاہدہ کیا تھا – اور 1786ء میں انہوں نے مراکش کے ساتھ معاہدے کے لیے مذاکرات میں مدد فراہم کی جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کا کسی بھی غیر ملکی قوت کے ساتھ پہلا معاہدہ تھا۔ بعد ازاں الجزائر کے ساتھ تعلقات بہت پریشان کن رہے، کیونکہ وہاں کے حکمران نے امریکی تاجروں کے جہازوں پر نیم سرکاری پشت پناہی والی قزاقی کے خاتمے کے جواب میں خراج کی ادائیگی کا مطالبہ کر ڈالا تھا۔ 

جیفرسن نے خراج کی ادائیگی کی شدت سے مخالفت کی۔ اس تناظر میں، عام دعووں کے مطابق، جیفرسن نے دشمن کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے قرآن کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ لیکن اگر ہم جیفرسن کے کتب خانے میں قرآن مجید کے اس نسخے کی جگہ – اور ان کی سوچ – اور اس مخصوص ترجمے کے سیاق و سباق کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک مختلف کہانی سامنے آتی ہے۔

نوجوانوں کے لیے تھامس جیفرسن نے کتب کی بڑی تعداد کا مطالعہ کیا اور انہیں اپنے کتب خانے کی زینت بنایا، جس کا وسیع مجموعہ بالآخر لائبریری آف کانگریس کو عطیہ کیا گیا جو 6487 جلدوں پر مشتمل تھا جس میں قدیم فلسفہ سے لے کر کھانے پکانے تک کے موضوعات پر مشتمل کتب تھیں۔ اس وقت کے بیشتر شوقین حضرات کی طرح جیفرسن نے نہ صرف کتب کا فہرست نامہ مرتب کیا بلکہ ان کو نشان زد بھی کیا۔ یہ کتب کو نشان زد کرنے کا ان کا طریقہ تھا جس نے تصدیق کی کہ آج لائبریری آف کانگریس کی لاکھوں کتب میں قرآن مجید کا یہ نسخہ فی الواقع انہی سے وابستہ ہے۔

اپنے کتب خانے کو ترتیب دینے کا جیفرسن کا طریقہ ان کے ذہن میں قرآن مجید کے مقام پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ جیفرسن کی 44 زمرہ کی ترتیب کا منصوبہ فرانسس بیکن کے مطابق ترتیب دیا گیا تھا جو تقریباً جیفرسن ہی کی طرح قانون دان سے سیاست دان اور پھر فلسفی بن گئے۔ بیکن کے مطابق انسانی دماغ تین شعبوں پر مشتمل ہے: یادداشت، عقل اور تخیل۔ یہ ‘تثلیث’ جیفرسن کے کتب خانے میں جھلکتی ہے، جس کو انہوں نے تاریخ، فلسفے اور فنون لطیفہ میں تقسیم کیا تھا۔ ان میں سے ہر ایک ذیلی زمروں پر مشتمل تھا: مثال کے طور پر فلسفے کو اخلاقی و ریاضیاتی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا تھا؛ جن میں سے اول الذکر اخلاقیات اور علم قانون کے مزید تقسیم تھا، جو خود بھی مذہبی، ریاستی اور “کفایت شعاری” پر مشتمل تھا۔

اپنے کتب خانے کو ترتیب دینے کے جیفرسن کے نظام کو بسا اوقات “ان کے ذہن کا نقشہ” قرار دیا جاتا ہے۔ جیفرسن نے قرآن مجید کے اپنے نسخے کو مذہب کے حصے میں جگہ دی، جہاں وہ اساطیر اور زمانہ قدیم کے خداؤں کے بارے میں ایک کتب اور عہد نامہ عتیق کے درمیان رکھا گیا۔ یہ واضح ہے کہ جیفرسن مذہبی کتب کو تاریخ یا اخلاقیات پر مبنی کتب نہیں سمجھتے تھے – جیسا کہ عموماً توقع کی جاتی ہے – بلکہ انہیں علم قانون کا حصہ قرار دیتے تھے۔

جیفرسن کی جانب سے قرآن مجید کے اس نسخے کی خرید کی کہانی ہمیں اس زمرہ بندی کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ ورجینیا گیزٹ، جن کے ذریعے جیفرسن نے اپنی کتب کا آرڈر دیا، کے ریکارڈز کی تحقیق کے مطابق دانشور فرینک ڈیوی نے دریافت کیا کہ جیفرسن نے قرآن مجید کا یہ نسخہ 1765ء کے قریب قریب خریدا تھا، جب وہ ورجینیا میں کالج آف ولیم اینڈ میری کے طالب علم تھے۔ یہ امر اس عام تصور فی الفور خاتمہ کر دیتا ہے کہ جیفرسن کی اسلام میں دلچسپی امریکہ کی جہاز رانی کو بربر ریاستوں کی جانب سے لاحق خطرے کے باعث پیدا ہوئی۔ 

بجائے اس کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ان کی دلچسپی قانون کی تعلیم کے تناظر میں تھی – یہی وجہ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے کتب خانے کے علم قانون کے حصے میں قرآن مجید کو رکھا۔

قرآن میں جیفرسن کی قانونی دلچسپی بغیر وجہ کے نہیں تھی۔ بلاشبہ شریعت کی صورت میں اسلامی قانونی روایت موجود ہے جو قرآن مجید کی تشریحات پر مشتمل ہے، لیکن جیفرسن کے پاس ایک وجہ تھی: وہ یہ کہ ان کے زمانے میں تقابل قوانین کی معیاری کتاب جرمن اسکالر سیموئل وون پوفندورف کی قانون فطرت و اقوام (Law of Nature and Nations) تھی جو پہلی بار 1672ء میں شایع ہوئی۔ جیسا کہ فرینک ڈیوی ظاہر کرتے ہیں کہ جیفرسن نے پوفندورف کا کافی مطالعہ کیا، اور اپنی قانونی تحاریر میں کسی بھی دوسرے کے مقابلے میں سب سے زیادہ انہی کے حوالے دیے۔ 

پوفندورف کی کتاب اسلام اور قرآن کے مختلف حوالہ جات کی حامل تھی۔ گو کہ ان میں سے بیشتر اہانت آمیز تھے – جو اس وقت کے یورپی ادب میں کوئی انوکھی بات نہ تھی – جبکہ چند مواقع پر پوفندورف نے قرآن مجید کی قانونی مثالوں کا پسندیدگی کی نگا ہ سے حوالہ دیا ہے، جس میں اخلاقیات پر قرآن مجید کا زور، جوئے پانسے کی ممانعت اور جنگ کرنے والے ملکوں کے درمیان امن کی نصیحت شامل ہیں۔ جیسا کہ اور ایک معروف جیفرسن دانشور کیون ہائیز لکھتے ہیں: “اپنے قانونی مطالعے کو حتی الامکان حد تک بڑھانے کی خاطر جیفرسن نے قرآن مجید کی جانب توجہ مبذول کی۔
ایک قانون کی کتاب کی حیثیت سے قرآن مجید کے مطالعے کے لیے جیفرسن نے ایک نسبتاً جدید انگریزی ترجمے کا سہارا لیا جو پچھلی کوششوں سے نہ صرف تکنیکی لحاظ سے بہتر تھا، بلکہ اسی اثر پذیری کے ساتھ کیا گیا تھا جو جیفرسن کے اپنے رویے سے مختلف نہ تھی۔ ‘قرآن: المعروف محمد کا القرآن’ کے عنوان سے یہ ترجمہ ایک انگریز جارج سیل نے کیا تھا اور یہ 1734ء میں لندن میں شایع ہوا۔ دوسرا ایڈیشن 1764ء میں شایع کیا گیا، اور یہی وہ ایڈیشن ہے جس کی ایک نقل جیفرسن نے خریدی۔ 
جیفرسن کی طرح سیل بھی ایک قانون دان تھے، البتہ ان کا قلبی رحجان مشرقی علوم کی جانب زیادہ تھا۔ اپنے ترجمے کے دیباچے میں انہوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ “ترجمے کا کام انہوں نے اپنے تکلیف دہ پیشے کے کاموں کے درمیان ملنے والے فارغ وقت میں کیا۔” یہ دیباچہ قاری کو سیل کے مقاصد کے بارے میں بھی آگاہ کرتا ہے: “اگر دیگر قوموں کے مذہبی اور معاشرتی اداروں ہماری معلومات کے لیے اہمیت رکھتے ہیں تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)، عربوں کے قانون ساز، اور دنیا کے اس عظیم تر حصے پر ایک صدی کے اندر اندر پھیل جانے والی ریاست کے بانی جس پر کبھی رومیوں سردار تھے، کو جاننا بہت ضروری ہے۔” پوفندورف کی طرح سیلز نے بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کردار کو ایک “شارع قانون” اور قرآن کو ایک خاص قانونی روایت کی نظر سے دیکھا ہے۔
  
اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیلز کا ترجمہ اُن تمام تعصبات اور بدگمانیوں سے خالی ہے جو اُس عہد میں یورپ میں اسلام پر ہونے والے کام کیامتیازی خصوصیتہوتی تھی۔ لیکن سیل نے ویسا گستاخانہ انداز نہیں اپنایا جو اِس سے قبل ترجمہ قرآن کی کوششوں میں صفحات بھرنے کے لیے اختیار کیا گیا تھا۔ مقابلتاً سیلز شائستگی کی جانب مائل رہے اور حتیٰ کہ چند ایسے کلمات تک ادا کیے جو میرے خیال میں لائق تحسین ہیں۔ انہوں نےپیغمبر اسلام کوعہد کے پکے، خوبصورت شخصیت، کچھ ظریف، خوشگوار رویے کے حامل، غریبوں کے لیے کشادہ دل، سب پر کرم و عنایت کرنے والے، دشمنوں کے خلاف ڈٹ جانے والے، اور سب سے بڑھ کر نامِ خدا کی تعظیم کرنے والےقرار دیا۔ پیغمبر اسلام کا یہ روپ و شبیہ پیش کرنا ان تمام ترجمہ کاروں سے مختلف تھا جن کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا کہ وہ عیسائیت کی برتری ثابت کریں۔

سیلز کی کشادہ خیالی کے علاوہ معیار کے لحاظ سے بھی اُن کا ترجمہ گزشتہ لکھاریوں سے کہیں بڑھ کر تھا۔ قرآن مجید کے پہلے کے تمام انگریزی ترجمے اصلی عربی کی بنیاد پر نہیں تھے، بلکہ لاطینی اور فرانسیسی ترجموں سے کیے گئے تھے۔ اس کے مقابلے میں سیل نے براہ راست عربی متن سے ترجمہ کیا۔ یہ درست نہیں ہے، جیسا کہ معروف والٹیئر نے 1764ء میں اپنی معروف ڈکشنائے فلاسفک میں دعویٰ کیا تھا، کہ سیل نے 25 سال عربوں میں رہ کر عربی زبان پر عبور حاصل کیا؛ بلکہ سیل نے یہ زبان ‘عہد نامۂ جدید’ کے عربی ترجمے کی تیاری کے منصوبے میں شمولیت کے دوران سیکھی، جو شامی عیسائی باشندوں کے لیے کیا جا رہا تھا، یہ اک ایسا منصوبہ تھا جسے انجمنِ فروغِ علومِ عیسائیت لندن کی جانب سے شروع کیا گیا تھا۔
 اس کام میں مدد کے لیے لندن آنے والے عرب محققین کے ساتھ پڑھتے ہوئے سیل نے چند سالوں میں عربی پر اتنا عبور حاصل کر لیا کہ وہ عربی متن کی پروف ریڈنگ کے لیے خدمات انجام دینے کے قابل ہو گئے۔

تھامس جیفرسن کے نسخۂ قرآن کی ایک جھلک (تصویر: Aasil Ahmed)
چنانچہ یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ سیل عیسائیوں کی مقدس کتاب کو عربی میں ترجمہ کرنے سے مسلمانوں کی مقدس کتاب کو آبائی انگریزی میں ترجمہ کرنے کی جانب منتقل ہوئے۔ انگریزی میں ایک قابل بھروسہ ترجمے کی کمی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اُن کا مقصد “اصل کا درست ترین خیال” پیش کرنا تھا۔ گو کہ سیل کی انگریزی دورِ جدید میں بہت ثقیل لگے گی، لیکن اس امر کو کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے اصل عربی کے حسن و شاعرانہ مزاج کا کچھ حصہ منتقل کرنے کی کوشش کی۔
قرآن مجید کی درست ترین ترجمانی کرنے کے ساتھ سیل کی یہ بھی خواہش تھی کہ وہ اپنے قارئین کو اسلام کا درست ترین تعارف کروائیں۔ جیفرسن کے خریدے گئے نسخے کا صرف “تمہیدی مقالہ”، جیسا کہ انہوں نے اسے عنوان دیا، ہی 200 صفحات سے زائد کا تھا اور بہت دیانتداری سے اسے دستاویزی شکل دی گئی، اس میں اسلامی شہری قوانین کا ایک حصہ تھا جو شادی، طلاق، وراثت، قانونی سزا اور جنگوں کے قوانین پر مبنی تھا۔

لیکن کیا قرآن مجید کے مطالعے نے تھامس جیفرسن پر اثر بھی ڈالا؟ اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے، کیونکہ چند تحاریر میں پیش کردہ معمولی حوالے اُن کے نظریات کو واضح طور پر ظاہر نہیں کرتے۔ شاید اِس مطالعے نے ہی جیفرسن میں عربی سیکھنے کی خواہش جگائی ہو (1770ء کی دہائی میں جیفرسن نے عربی صرف و نحو پر چند کتب خریدی تھیں)، لیکن سب سے اہم بات یہ کہ ممکنہ طور پر مذہبی آزادی سے وابستگی بھی اسی مطالعے سے پروان چڑھی ہو۔ دو مثالیں اس خیال کو تقویت دیتی ہیں۔

1777ء میں، میثاق آزادی کی تالیف کے ایک سال بعد، جیفرسن کو ورجینیا کے مجموعہ قوانین سے نو آبادیاتی دور کے اثرات کو ختم کرنے کا منصوبہ تھمایا گیا۔ اس کارِ نمایاں کے ایک حصے کے طور پر انہوں نے مذہبی آزادی کے ضابطے کے لیے ایک مسودۂ قانون کو دستاویزی شکل دی، جسے 1786ء میں نافذ کیا گیا۔ اپنی آپ بیتی میں جیفرسن نے اپنی اس شدید خواہش کا اظہار کیا کہ یہ مسودہ بل صرف تمام گروہوں کے عیسائیوں تک ہی نہيں پھیلنا چاہیے بلکہ اس کے “دائرۂ تحفظ میں یہودی و بت پرست، عیسائی اور محمدی (مسلمان)، ہندی اور ہر گروہ کے بے دین” شامل ہونے چاہئیں۔

مذہبی تکثیریت کے حوالے سے سب کو شامل کرنے کا یہ نظریہ جیفرسن کے ہم عصروں میں بالاتفاق مقبول نہ تھا۔ تاریخ دان کی حیثیت سے رابرٹ ایلی سن نے 18 ویں صدی کے اواخر میں کئی امریکی لکھاریوں اور سیات دانوں کے اسلام کے حوالوں کو دستاویزی شکل دی ہے جس میں مذہب اسلام کو غلط مقاصد کے حامل کے طور پر پیش کیا گیا۔ ۔ متنازع ترجموں اور بسا اوقات انتہائی حد تک مسخ شدہ بیانات سے مسلح اِن افراد نے اسلام کی تصویر کشی جبر و استبداد کے انتہائی خطروں کے ذریعے کی۔

یہ رویے جیفرسن کے 1788ء کے وژن سے ایک مرتبہ پھر اُس وقت متصادم ہوئے، جب ریاستوں نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے آئین کی توثیق کے لیے ووٹ دیے۔ ایک کلیدی مسئلہ وہ قانون تھا – جو اب آرٹیکل vi، حصہ 3 ہے- جو کہتا ہے کہ “ریاستہائے متحدہ امریکہ کے زیر اہتمام کسی بھی دفتر یا سرکاری ٹرسٹ کے لیے اہل ہونے کی خاطر کسی مذہبی امتحان کی ضرورت نہیں۔” چند وفاق مخالفین نے اِس سمت اشارہ کیا اور مذہبی امتیاز پر پابندی کی مخالفت کی اور ایک ایسا فرضی منظرنامہ قائم کر ڈالا جس میں ایک مسلمان کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کا صدر بنایا گیا۔
 اس کے مخالف دلیل دینے والےوفاقیت کے حامیوں نے ، دیگر معاملات پر جیفرسن کی مستقل مخالفت کے باوجود، مذہبی رواداری کے اُن کے وژن کو سراہا اور تمام شہریوں کے لیے عقیدے اور منتخب دفتر کے لامحدود حقوق کی حمایت کی۔ ایک تاریخ دان کی حیثیت سے ڈینیس اسپیل برگ شمالی کیرولائنا میں وفود کے درمیان اس تنازع کی اپنی جانچ میں ظاہر کرتی ہیں کہ ان آئینی بحثوں کے دوران “امریکی شہری ہونے کا کیا مطلب ہے، اس کی تعریف میں مسلمان علامتی طور پر نشانہ بنایا گیا۔”
یہ سوچنا دلچسپ ہوگا کہ جیفرسن کے مطالعہ قرآن نے اُنہیں اسلام کے بارے میں معروف بدگمانیوں سے متعارف کروایا ہوگا، اور ہو سکتا ہے کہ انہیں اس یقین کامل تک پہنچایا ہو کہ مسلمان ، کسی بھی دوسرے مذہبی گروہ کی طرح، نئی ملت کی جانب سے پیش کردہ تمام قانونی حقوق کے بھی حقدار ہیں۔ اور گو کہ جیفرسن امریکی جہازوں پر حملے کے باعث بربر ریاستوں کے خلاف اعلان جنگ کے حامی تھے، لیکن انہوں نے اس معاملے کو کبھی بھی مذہبی رخ نہیں دیا، بلکہ اُن کی پوزیشن خالصتاً سیاسی اصولوں پر مبنی تھی۔ دشمنوں کے ذہن کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے قرآن کے مطالعے سے کہیں دور زیادہ قرین قیاس تو یہ ہے کہ ان کی ابتدائی معلومات نے اس تجزیے کی تصدیق کی کہ بربر تنازع کی جڑیں معاشی تھیں، مذہبی نہیں۔

سیلز کا ترجمہ قرآن اگلے مزید 150 سال تک انگریزی زبان کا بہترین ترجمہ رہا۔ آج جیفرسن کے نسخۂ قرآن کے اصل نسخے کے علاوہ، لائبریری آف کانگریس اسلام سے متعلقہ تقریباً 10 لاکھ مطبوعہ اشیاء کی حامل ہے – جو قانون سازوں اور شہریوں کی ہر نئی نسل کے لیے معلومات کا ایک عظیم ذخیرہ ہے ۔
سباستیان آر پرانژ سے s.prange@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ یونیورسٹی آف لندن کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹیڈیم میں تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی سند کے

No comments:

Post a Comment