Tuesday, October 2, 2012

عدنان میندرس، ترکی کے مظلوم وزیراعظم


عدنان میندرس، ترکی کے وہ مظلوم وزیراعظم، جنہیں "اسلام کا مجرم" قرار دے کر تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔ 
 
عدنان کا پہلا جرم یہ تھا کہ انہوں نے قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے اسمبلی کے ذریعے اس قانون کو منسوخ کروایا اور 18 سال بعد 17 جون 1950ء کو ترک
ی کے طول و عرض میں عربی میں اذان دی گئی۔ ان کا دوسرا جرم مسلم دنیا میں "بابائے سیکولر ازم" مصطفیٰ کمال اتاترک کے مزار کے عین سامنے مسجد تعمیر کروانا تھا، جس کے لیے انہوں نے اپنی جیب سے ایک لاکھ لیرا دیے تھے۔ عدنان میندریس کا تیسرا "جرم" اتاترک عہد میں حج بیت اللہ پر عائد کی گئی پابندی اٹھانا تھا اور یوں ربع صدی یعنی 25 سال بعد 1950ء ہی میں 423 ترک باشندوں نے فریضۂ حج ادا کیا۔

عدنان میندریس نے وہ بیڑیاں بڑی حد تک کاٹیں جو ترکی میں قیامِ جمہوریت کے وقت اسلام کے پاؤں میں ڈال دی گئی تھیں۔

مئی 1960ء میں ترک فوج نے حکومت کا تختہ الٹ کر عدنان اور ان کی کابینہ کے چند اراکین کے خلافِ ضابطہ عدالت میں مقدمہ چلایا اور آئین کی خلاف ورزی کا بے بنیاد الزام لگاتے ہوئے عدنان سمیت چند افراد کو پھانسی کی سزا سنا دی۔

فوج پر "سیکولر ازم کے دفاع" کا جنون اس قدر سوار تھا کہ اس نے امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوئم سمیت کئی عالمی رہنماؤں کے مطالبوں کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھا اور 17 ستمبر 1961ء کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی پانے والے دو دیگر سیاست دانوں میں عدنان کے وزیر خارجہ فاتن رشتو زورلو بھی شامل تھے۔

اس عظیم سانحے پر پاکستان کے معروف شاعر نعیم صدیقی ان الفاظ میں نوحہ کناں ہوئے:

مری فغانِ سحر! جا بہ درگہ عالی
وہ ایک ذات کہ ہے بے نواؤں کی والی
یہ دکھڑا روئیو روضے کی تھام کر جالی

بزیر شاخ گل افعی پلے گلستان میں
درندے چھا گئے تاریخ کے بیاباں میں
گھسے ہیں بھیڑیئے ملت کے قصر و ایواں میں

ترے چمن کو کیا مالیوں نے خود تاراج
ہزاروں ابن جمیرہ ہیں نت نئے حجاج
ہم اپنے تیروں کی بوچھاڑ کا ہیں خود آماج

پلے حرم میں رگوں میں ہے ان کی دیر کا خوں
یہ چھانٹ چھانٹ کر پیتے ہیں اہل خیر کا خوں
حسین پاک کا ، عبداللہ بن زبیر کا خوں

ہم ان درندوں کو صدیوں سے خوں پلاتے رہے
کلیجے کاٹ کر ہر شب انہیں کھلاتے رہے
ہماری ہڈیا محلوں میں یہ چباتے رہے

غضب کے شعلے ہمیشہ یونہی بھڑکتے رہے
ترے غلاموں کے لاشے یونہی پھڑکتے رہے
ہزاروں سینوں میں دل خوف سے دھڑکتے رہے

وہ تیرے عشق کے مارے وہ بندگان وفا
وہ اہل صدق و صفا پیروان کیش رضا
انہی درندوں کے ہاتھوں ہوئے شہید جفا

یہ خود پرست کہ گم نشہ جلال میں ہیں
چھپے ہوئے یہ تصنع کی چال ڈھال میں ہیں
یہ بھیڑیئے ہیں مگر آدمی کی کھال میں ہیں

ہے دانہ جھولی میں کاندھے پہ ان کے دام بھی ہے
ہیں دیں سے بیر ، لبوں پہ خدا کا نام بھی ہے
بغل میں ان کے چھری منہ پہ رام رام بھی ہے

ہمیشہ دعویٰ ہے ان کا دلیل سے عاری
لگی ہے زعمِ خدائی کی ان کو بیماری
ہے ان کا ایک ہی مذہب سو وہ ہے خونخواری

وہ ناخنوں پہ وہ دامن پہ آستین پہ خوں
لبوں پہ خون ہے آنکھوں میں خوں جبین پہ خون
حضور دیکھئے سبزہ پہ خوں زمین پہ خوں

گلوں سے شاخوں سے پتوں سے بہہ رہا ہے لہو
بہار کرتی ہے ہر صبح اس لہو سے وضو
ہے تیرے باغ کی موج ہوا میں خون کی بو

کتابِ پاک کے اوراق خون آلودہ
چراغِ کعبہ کا ہے طاق خون آلودہ
دل و نگاہ کے آفاق خون آلودہ

نہ صرف دار کے اوپر سے موجِ خوں گزری
حضور آپ کے منبر سے موجِ خوں گزری
تھا جس میں سودا اسی سر سے موجِ خوں گزری

ستم کشیدہ ہے ملت، الم رسیدہ ہے
انہی کے پنجوں سے سارا بدن دریدہ ہے
ہزار زخموں کی ٹیسوں سے دل تپیدہ ہے

ترے پیام کی مشعل جلے تو کیسے جلے
ترا نظامِ مقدّس چلے تو کیسے چلے
عذاب ٹوٹ پڑا ہے، ٹلے تو کیسے ٹلے


بہت دراز ہوا اب یہ درد ناک عذاب
ہیں کتنے قرن سے تیرے غلام خانہ خراب
یہ تیرہ صدیوں کی شب اتنا ہولناک یہ خواب

اب ان درندوں سے ممکن نجات ہے کہ نہیں؟
حضور کوئی امیدِ حیات ہے کہ نہیں؟

No comments:

Post a Comment