Tuesday, September 25, 2012

اورنگزیب عالمگیر کا انصاف



** اورنگزیب عالمگیر کا انصاف **

مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور کا یہ واقعہ بادشاہ اور مجذوب کے درمیان کشمکش کی ایک انوکھی کہانی ہے جس میں مجذوب اور بادشاہ دونوں ہی جیت گئے۔ اس طرح کہ مجذوب نے اپنا مقصد حاصل کرلیا اور اورنگ زیب عالمگیر مجرم کو نہیں تو اس کے وکیل اور نجات دہندہ کو سزا دینے میں کامیاب ہوگیا۔ اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اورنگ زیب خود بھی اسی نظام میں کسی عہدے پرفائز تھا
جس نظام کا یہ پراسرار مجذوب حصہ تھا۔
اس وقت کے قانون کے تحت قتل کے مجرم کیلئے رحم کی آخری درخواست بادشاہ کے حضور پیش کی جاتی اور اگر بادشاہ یہ درخواست مسترد کردیتا تو پھر مجرم کسی صورت بچ نہیں سکتا تھا۔ اسی دور کی بات ہے کہ ایک بار دہلی میں قتل کی ایک واردات ہوئی۔ عدالت نے اس قاتل کو سزائے موت سنادی اور شہنشاہ اورنگزیب نے اس کی رحم کی درخواست بھی مسترد کردی۔


پھانسی کا وقت قریب آگیا۔ پھانسی سے ایک روز پہلے کی بات ہے‘ قاتل کا غمزدہ بھائی پریشانی کے عالم میں بازار میں گھوم رہا تھا کہ ایک نامعلوم شخص نے اس کا ہاتھ پکڑلیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے ایک غلیظ لباس والا بوڑھا مجذوب کھڑا تھا جس کا سر‘ چہرہ اور پورا جسم گرد آلود تھا۔ اس کی حالت سے فاقہ زدگی ٹپک رہی تھی۔
اس مجذوب نے اس سے صرف دو لفظ کہے بھوک‘ روٹی۔ اسے مجذوب کی حالت پر رحم آگیا اور اس نے قریبی دکان سے اسے کھانا کھلایا۔ اس نے دیکھا کہ مجذوب وحشیوں کی طرح کھانا کھارہا تھا۔ کھانے سے فارغ ہوکر مجذوب اس شخص سے مخاطب ہوا اور کہا ”مانگ کیا مانگتا ہے؟“غمزدہ شخص مسکرایا کہ جسے کھانے کو نہ جانے کب سے کچھ نہیں ملا‘ وہ مجھے کیا دے گا لیکن مجذوب نے دوبارہ تحکم آمیز انداز میں کہا ”مانگ کیا مانگتا ہے“ اس پر وہ شخص بولا کل صبح دس بجے میرے بھائی کو پھانسی دی جارہی ہے اسے رکوا سکتے ہو؟“یہ سن کر مجذوب کی کیفیت ہی بدل گئی۔ خوف اس کے چہرے سے ٹپکنے لگا اور وہ”موت‘ موت‘ دیر ہوگئی‘ دیرہوگئی‘ کے عجیب وغریب الفاظ کہتا ہوا ایک طرف کو بھاگ نکلا۔
اگلے روز وہ شخص اپنے بھائی سے آخری ملاقات کے لیے آٹھ بجے قیدخانے کے باہر پہنچ گیا۔ اچانک اس نے دیکھا کہ بادشاہ اورنگزیب گھوڑے پر سوار قیدخانے کی طرف آرہا ہے۔ قیدخانے کے عملے میں شہنشاہ کی اس غیرمتوقع آمد پر کھلبلی مچ گئی۔بادشاہ سیدھا اندر چلا گیا اور قیدخانے کے داروغہ سے پھانسی پانے والے شخص کے کاغذات طلب کیے اور ان پر حکم لکھا



 ”قاتل کو فوراً رہا کردیا جائے“ قیدخانے کا داروغہ اس حکم نامے پر ششدر تھا۔ بادشاہ نے پہلی مرتبہ اپنا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ کیا تھا۔ بہرحال بادشاہ کے حکم کے تحت قاتل کو رہا کردیا گیا اور وہ ہنسی خوشی اپنے بھائی کے ساتھ گھر چلا گیا۔ بادشاہ بھی واپس چلا گیا۔

پھانسی کا وقت دس بجے مقرر کیا گیا تھا۔ متعلقہ افسر مجرم کو پھانسی لگانے قیدخانے پہنچا تو قیدخانے کے داروغے نے اسے قاتل کی رہائی کے بارے میں سب کچھ بتادیا۔ حاکم نے قیدخانے کے داروغہ کی اس بات پر یقین کرنے سے انکار کردیا اور سیدھا محل جاپہنچا۔ وہاں جاکر اسے معلوم ہوا کہ شہنشاہ باہر جانے کیلئے کہیں نکلے ہی نہیں۔ اس کے ہوش اُڑگئے۔ اس نے فوراً شہنشاہ کو ملاقات کیلئے عریضہ بھیجا۔ اورنگزیب نے اسے بلالیا اور تفصیل سن کر سخت مشتعل ہوگیا اور ساتھ لے کر قیدخانے جا پہنچا۔قیدخانے کا داروغہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔ اس نے بادشاہ کو بتایا


 ” آپ اتنی دیر پہلے تشریف لائے تھے اور قاتل کی رہائی کا اس طرح تحریری حکم دیا تھا“ کاغذات پر بادشاہ کے دستخط اور مہر بالکل اصلی تھی۔ قیدخانے کا داروغہ بے قصور تھا۔ بادشاہ نے دُکھ سے صرف اتنا کہا

 ”ہم نے قاتل کو سزا دئیے بغیر چھوڑ دیا۔“کچھ دیر سوچنے کے بعد گویا بادشاہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا۔ اس نے قیدخانے کے داروغہ سے پوچھا ”ہم قاتل کو آزاد کرنے کے بعد کس طرف واپس گئے تھے“قیدخانے کے داروغہ نے اس سمت اشارہ کیا۔ بادشاہ بڑی تیزی سے گھوڑے پر اسی سمت روانہ ہوگیا۔ گھوڑا بہت تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ اب وہ شہر سے باہر ویرانے میں داخل ہوچکا تھا۔ کچھ آگے جاکر اس نے دیکھا کہ ایک مجذوب دوڑتا ہوا جارہا ہے‘ وہ خوفزدہ ہے اور بار بار مڑ کر پیچھے دیکھ رہا ہے۔ بادشاہ کے گھوڑے نے اسے جلد ہی جالیا وہ سرجھکائے خاموش کھڑا تھا۔اورنگزیب نے مجذوب سے پوچھا نظام میں خلل ڈالنے کی سزا معلوم ہے؟
 مجذوب نے جواب میں ایک لفظ کہا ”موت“ پھر ایسا کیوں کیا؟ بادشاہ نے پوچھا: ”وعدہ کرچکا تھا‘ مجذوب نے مختصر جواب دیا۔”اب اپنی گردن پیش کرو“ بادشاہ نے حکم دیا۔ مجذوب نے گردن بڑھا دی۔ بادشاہ کی تلوار لہرائی اور مجذوب کا سر تن سے جدا ہوکر دورجاگرا

1 comment: