> ایک لمحہ اورصدیوں کا سفر !
> موت برحق ہے مگر ابنِ آدم بھی عجب تخلیقِ خدا وند ی ہے کہ ان میں سے
> بعض اپنی عقل اور حکمت سے موت کو جسمانی طور پر نہ سہی مگر اپنے علم و
> کردار سے ایسی مات دیتے ہیں کہ لگتا ہے کہ موت خود آنسو بہا رہی ہے۔
> ہماری زبان میں ایک لفظ ہے ” زندگی“ ہمارے اُستادِ معنوی ظ انصاری
> مرحوم ایک دن ہم سے کہنے لگے کہ” اکثرلوگ کہتے ہیں زِندگی کے دِن کاٹ رہے
> ہیں۔ مورکھوں کو پتہ نہیں کہ زِندگی کسے کہتے ہیں، یہ جو ” زندگی“ کاٹنے
> والے ہیں اُنھیں پتہ ہی نہیں کہ وہ زندگی کو نہیں بلکہ زندگی تو خود
> انھیں کاٹ رہی ہے۔ میاں! جسے ایک دُنیا زندگی سمجھتی ہے وہ ” زندگی“ نہیں
> بلکہ عمر گزاری ہے عمر گزاری۔
’ زندگی‘ ایک بڑا لفظ، ایک بڑی چیز ہے ۔ یہ
> سب کو کہاں ملتی ہے۔ مگر جسے اُس کی توفیق کی جستجو ہو تو قدرت کی طرف سے
> ”زندگی“ ایسے ملتی ہے کہ موت بھی اس سے شرمندہ ہو جاتی ہے۔“
> اس دُنیا میںجو ذِی نفس آیا ہے اسے موت کا مزا تو بہر حال چکھنا ہی ہے ۔
> اس دُنیا کو ہزارہا ہزار سال ہو چکے ہیں اور اس کی تاریخ بھی موجود ہے۔
> نجانے کتنے انسان آئے اور چلے گئے مگر انہی میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو
> موت کی اٹل حقیقت کے باوجود اپنے افکار سے، اپنے کردار سے، اپنے کام سے
> اپنے نام کو دوام دے گئے ہیں۔ سچ ہے کہ اسی کو کہتے ہیں ” زندگی“ ہم کسی
> اور شعبے کا ذکر نہ کرتے ہوئے صرف علم کی دُنیا کی طرف دیکھتے ہیں تو ایک
> نہیں بیشمارشخصیات ہمیں نظر آتی ہیں۔شیخ سعدی شیرازی ، مولانا روم
> اورشیکسپئر سے لے کر جارج برناڈ شا، فیثا غورث، زریاب ،خیام ، آریہ بھٹ
> ،والمیکی، تلسی داس، کالیداس، کبیر داس، میر تقی میر، مرزا غالب، میر
> اینس ، ٹیگور، اقبال سے لے کر ہمارے عہد تک بہت سے نام ہیں جو لئے جاسکتے
> ہیں۔
ان شخصیات کو اس دُنیا سے جا کر برسہا برس گزر گئے مگر اُن کا کام
> اور ان کانام ایسے باقی ہے جیسے وہ اپنے وجود کے ساتھ ہمارے سامنے ہوں۔
> آپ اگر چاہےں تو خود ذرا توجہ کرکے بہت سی شخصیات کو اپنے ذہن میں زندہ
> پائیں گے۔ بات در اصل احساس کی ہے اور احساس کون کرتا ہے؟
زندہ آدمی ہی
> پتہ چلا کہ احساس ہی کا ایک نام زندگی بھی ہے۔ کچھ لوگ چار دِن کی عمر
> گزاری ہی کو زِندگی سمجھ لیتے ہیں اور اِدھر وہ رُخصت ہوئے اور وقت کے
> گزران کے ساتھ وہ بھی فراموش کر دِیے گئے۔
> گزشتہ بدھ کو مغربی یوپی کے کیرانہ( ضلع مظفر نگر) میں اُردو کے ایک
> شاعر جو مظفر رزمی گزرے ہیں۔ اُن سے ہمیں ذاتی نیاز حاصل رہا ہے۔
پہلی
> ملاقات تو غائبانہ تھی مگر ان سے باقاعدہ ملاقات کب ہوئی یاد نہیں۔ دلچسپ
> آدمی تھے جب بھی ملے تووہی اگلوں سی وضع قطع اور ادب و آداب سے انھیں
> مزین پایا۔ ہم نے اُن کی خبر میں لکھا تھا کہ وہ خود اِتنے مشہور نہیں
> تھے جتنا اُن کا شعر:
> یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے٪ لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
> اٹھارہ لفظوں پر مشتمل یہ دو مصرعے ایک مدت سے ہمیں ہی نہیں ہمارے جیسے
> نجانے کتنوں کو ازبر ہیں۔ اس کے برعکس شعرا و ادباکی برادری میں بیشمار
> ہیں جن کی فکر اور اظہار کے درخت سے ہمہ وقت لفظوں کی فصل سامنے آرہی ہے
> اور آج تو ان میں ایسے افراد بیشمار ہیں جنہوں نے کتابچوں اور کتابوں کے
> ڈھیر لگا دِیے ہیں۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں شاید ہی کچھ لوگ ایسے
> ہوں جو اس عمر گزاری میں اپنی(آئندہ) زندگی کو دیکھ سکتے ہوں۔ البتہ اپنے
> بارے میں ہم جیسوں کو جو ”غلط فہمی“ ہوتی ہے وہ ہرگز قابل ِذکر نہیں۔ شیخ
> سعدی شیرازی کا نام ہم نے اوّل اوّل لیا ہے انہیں کے حوالے سے عرض ہے کہ
> وہ اپنے علم و فضل میں جو کمال رکھتے ہیں اس سے دُنیا واقف ہے لہٰذاُس کا
> بیان وقت اور اس جگہ کا ضیاع ہوگا۔ مگر ان کے وہ چار مصرعے(بلغ العلیٰ
> بکمالہ) ساری دُنیا میں اب تک روشن ہیں اور ان کی روشنی ایسی ہے جو کبھی
> ماند نہیں پڑے گی۔ اس میں اُن کے افکار و الفاظ ہی نہیں اُس شخصیت کابھی
> نور اپنا کام کررہا ہے۔
جس کےلئے اُنہوں نے یہ رُباعی کہی تھی۔
> ہم اپنے مظفر رزمی کی رِحلت پر یقینا غمزدہ ہیں مگر ایک خوشی بھی ہے کہ
> ُانہوں نے اپنی عمرہی میں ، صرف اپنے دو مصرعوں کے وجود میں اپنی زندگی
> کی روشنی دیکھ لی تھی۔ اس میں اُن لوگوں کے لئے ایک سبق ہے جو ’آئندہ‘
> زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔
> مگر یہ زِندگی ایک سوال بھی کرتی محسوس ہوتی ہے کہ میرے لئے آپ کیا کر
> رہے ہیں؟
>
No comments:
Post a Comment