Monday, September 24, 2012

Zindagi ki haqeeqat



  • > ایک لمحہ اورصدیوں کا سفر !


    > موت برحق ہے مگر ابنِ آدم بھی عجب تخلیقِ خدا وند ی ہے کہ ان میں سے


    > بعض اپنی عقل اور حکمت سے موت کو جسمانی طور پر نہ سہی مگر اپنے علم و


    > کردار سے ایسی مات دیتے ہیں کہ لگتا ہے کہ موت خود آنسو بہا رہی ہے۔


    > ہماری زبان میں ایک لفظ ہے ” زندگی“ ہمارے اُستادِ معنوی ظ انصاری


    > مرحوم ایک دن ہم سے کہنے لگے کہ” اکثرلوگ کہتے ہیں زِندگی کے دِن کاٹ رہے


    > ہیں۔ مورکھوں کو پتہ نہیں کہ زِندگی کسے کہتے ہیں، یہ جو ” زندگی“ کاٹنے


    > والے ہیں اُنھیں پتہ ہی نہیں کہ وہ زندگی کو نہیں بلکہ زندگی تو خود


    > انھیں کاٹ رہی ہے۔ میاں! جسے ایک دُنیا زندگی سمجھتی ہے وہ ” زندگی“ نہیں


    > بلکہ عمر گزاری ہے عمر گزاری۔
    ’ زندگی‘ ایک بڑا لفظ، ایک بڑی چیز ہے ۔ یہ


    > سب کو کہاں ملتی ہے۔ مگر جسے اُس کی توفیق کی جستجو ہو تو قدرت کی طرف سے


    > ”زندگی“ ایسے ملتی ہے کہ موت بھی اس سے شرمندہ ہو جاتی ہے۔“


    > اس دُنیا میںجو ذِی نفس آیا ہے اسے موت کا مزا تو بہر حال چکھنا ہی ہے ۔


    > اس دُنیا کو ہزارہا ہزار سال ہو چکے ہیں اور اس کی تاریخ بھی موجود ہے۔


    > نجانے کتنے انسان آئے اور چلے گئے مگر انہی میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو


    > موت کی اٹل حقیقت کے باوجود اپنے افکار سے، اپنے کردار سے، اپنے کام سے


    > اپنے نام کو دوام دے گئے ہیں۔ سچ ہے کہ اسی کو کہتے ہیں ” زندگی“ ہم کسی


    > اور شعبے کا ذکر نہ کرتے ہوئے صرف علم کی دُنیا کی طرف دیکھتے ہیں تو ایک


    > نہیں بیشمارشخصیات ہمیں نظر آتی ہیں۔شیخ سعدی شیرازی ، مولانا روم


    > اورشیکسپئر سے لے کر جارج برناڈ شا، فیثا غورث، زریاب ،خیام ، آریہ بھٹ


    > ،والمیکی، تلسی داس، کالیداس، کبیر داس، میر تقی میر، مرزا غالب، میر


    > اینس ، ٹیگور، اقبال سے لے کر ہمارے عہد تک بہت سے نام ہیں جو لئے جاسکتے


    > ہیں۔
     ان شخصیات کو اس دُنیا سے جا کر برسہا برس گزر گئے مگر اُن کا کام


    > اور ان کانام ایسے باقی ہے جیسے وہ اپنے وجود کے ساتھ ہمارے سامنے ہوں۔


    > آپ اگر چاہےں تو خود ذرا توجہ کرکے بہت سی شخصیات کو اپنے ذہن میں زندہ


    > پائیں گے۔ بات در اصل احساس کی ہے اور احساس کون کرتا ہے؟
     زندہ آدمی ہی


    > پتہ چلا کہ احساس ہی کا ایک نام زندگی بھی ہے۔ کچھ لوگ چار دِن کی عمر


    > گزاری ہی کو زِندگی سمجھ لیتے ہیں اور اِدھر وہ رُخصت ہوئے اور وقت کے


    > گزران کے ساتھ وہ بھی فراموش کر دِیے گئے۔


    > گزشتہ بدھ کو مغربی یوپی کے کیرانہ( ضلع مظفر نگر) میں اُردو کے ایک


    > شاعر جو مظفر رزمی گزرے ہیں۔ اُن سے ہمیں ذاتی نیاز حاصل رہا ہے۔ 
    پہلی


    > ملاقات تو غائبانہ تھی مگر ان سے باقاعدہ ملاقات کب ہوئی یاد نہیں۔ دلچسپ


    > آدمی تھے جب بھی ملے تووہی اگلوں سی وضع قطع اور ادب و آداب سے انھیں


    > مزین پایا۔ ہم نے اُن کی خبر میں لکھا تھا کہ وہ خود اِتنے مشہور نہیں


    > تھے جتنا اُن کا شعر:


    > یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے٪ لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی


    > اٹھارہ لفظوں پر مشتمل یہ دو مصرعے ایک مدت سے ہمیں ہی نہیں ہمارے جیسے


    > نجانے کتنوں کو ازبر ہیں۔ اس کے برعکس شعرا و ادباکی برادری میں بیشمار


    > ہیں جن کی فکر اور اظہار کے درخت سے ہمہ وقت لفظوں کی فصل سامنے آرہی ہے


    > اور آج تو ان میں ایسے افراد بیشمار ہیں جنہوں نے کتابچوں اور کتابوں کے


    > ڈھیر لگا دِیے ہیں۔
     مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں شاید ہی کچھ لوگ ایسے


    > ہوں جو اس عمر گزاری میں اپنی(آئندہ) زندگی کو دیکھ سکتے ہوں۔ البتہ اپنے


    > بارے میں ہم جیسوں کو جو ”غلط فہمی“ ہوتی ہے وہ ہرگز قابل ِذکر نہیں۔ شیخ


    > سعدی شیرازی کا نام ہم نے اوّل اوّل لیا ہے انہیں کے حوالے سے عرض ہے کہ


    > وہ اپنے علم و فضل میں جو کمال رکھتے ہیں اس سے دُنیا واقف ہے لہٰذاُس کا


    > بیان وقت اور اس جگہ کا ضیاع ہوگا۔ مگر ان کے وہ چار مصرعے(بلغ العلیٰ


    > بکمالہ) ساری دُنیا میں اب تک روشن ہیں اور ان کی روشنی ایسی ہے جو کبھی


    > ماند نہیں پڑے گی۔ اس میں اُن کے افکار و الفاظ ہی نہیں اُس شخصیت کابھی


    > نور اپنا کام کررہا ہے۔
     جس کےلئے اُنہوں نے یہ رُباعی کہی تھی۔


    > ہم اپنے مظفر رزمی کی رِحلت پر یقینا غمزدہ ہیں مگر ایک خوشی بھی ہے کہ


    > ُانہوں نے اپنی عمرہی میں ، صرف اپنے دو مصرعوں کے وجود میں اپنی زندگی


    > کی روشنی دیکھ لی تھی۔ اس میں اُن لوگوں کے لئے ایک سبق ہے جو ’آئندہ‘


    > زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔


    > مگر یہ زِندگی ایک سوال بھی کرتی محسوس ہوتی ہے کہ میرے لئے آپ کیا کر


    > رہے ہیں؟


    >

No comments:

Post a Comment