تصوف کی تاریخ۔،
چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی دنیا کی تاریخ میں بدترین
زمانہ تھا۔ دنیا کا کوئی مذہب اپنی اصل ہیت پر قائم نہ تھا۔ انبیاء کی تعلیمات
مسخّ ہو چُکی تھیں۔ انسانوں کی عملی زندگیوں پر غفلت و گمراہی کی تیرہ تار گھٹائیں
چھائی ہوئی تھیں۔انسانیت جاں بلب تھی اشرف المخلوقات کی اس زبوں حالی کو دیکھ کر
رحمت حق کا بحرِ رحمت موجزن ہوا۔ اور دنیا کی اصلاح کے لیے مصلح اعظم ؐ کومبعوث
فرمایااورآپؐ پر وہ کتاب نازل فرمائی۔ جو تمام علوم کا منبع اور معدن ہےاور جس سے
بڑھ کر اخلاقی تعلیم دنیا کی کسی تعلیم میں موجود نہیں ہے۔ خود حضورؐنے ارشاد
فرمایا کہ انما بعثت لمکا رم الاخلاق ( میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا
ہوں)آپؐ کے اس وعدے کی تائید قرآن میں بھی ہے ۔ اِنک لَعلیٰ خلق عظیم ۔ توحید اور
حسن ِ خلق ہی دو ایسی چیزیں ہیں ۔ جو تصوف کی روحِ رواں ہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے
کہ یہ دونوں امور اسلام سے بہتراوراکمل دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ہیں ۔لہٰذا
جو مذہب و مسلک اسلام کے خلاف ہے وہ صاحب ِ تصوف نہیں ۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
کے دستِ حق پر جن لوگوں نے بیعت کی تھی وہ سب صوفی تھے۔ یہ لوگ قرآن و حدیث کے
علاوہ کسی اور چیز پر عمل نہیں کرتے تھے۔ان کا ہر فرد عابد و زاہد بھی تھا اورمعلم
و مفکر بھی۔ خودداری کا یہ عالم تھا کہ اگر گھوڑے پر چلتے ہوئے کوڑا ہاتھ سے زمین
پر گر جائے تو خود اُتر کر اٹھا لیا کسی سے سوال نہیں کیا۔ان کی ملکیت میں مصلیّٰ
، عصا اور کاسۂ ان تین چیزوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو راحت
پہنچاتےِ انہیں کے قوت و بازو سے دنیا میں حق و انصاف ، علوم و فنون اور امن و
امان کا سمندر موجزن ہوا ۔جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تو
اس وقت اسلام ہند ، شام ،مصر،چین اور افرقہ میں پہنچ چکا تھا بلکہ تقریبا تمام عرب
حلقہ بگوش اسلام ہو چکا تھا۔ وہ عرب جہاں آتش فساد مستقل رہتی تھی،وہ عرب جہاں
دختر کشی ، قمار بازی ، شراب نوشی ، استحصال بالجبر وغیرہ بکثرت رائج تھے۔ جہاں
جہالت کی تاریکیاں ہر سو پھیل چکی تھیں اسلام کی بعد امن تہذیب حسن ِاخلاق اور علم
و عمل کا گہوارہ بن چکا تھا۔ قوم کا نظام اعلیٰ منزل تک پہنچ چکا تھا۔ توحید کے
نور سے سینے منور ہو چکے تھے۔ وہاں ایک بڑی جماعت تیار تھی جو دنیا کی معلم اور
راہبر بننے کے قابل ہو چکی تھی
یہ تھا وہ دور، جہاںسے
حقیقی تصوف کا آغاز ہوتا ہے۔ اگرچہ تصوف اسلام سے قبل بھی موجود تھا مگر وہ تصوف
رہبانیت کی تعلیم دیتا تھا کہ دنیا سے دور جنگلوں میں جا کر اﷲ اﷲ کریں۔ مگر اصل
تصوف کی بنیاد اسلام نے آ کر دی۔
صحابۂ کرام کے دور میں تو اسلام عُروج کی طرف گامزن رہا ۔
مگر خلفائے راشدین کے بعد جب اسلام تنزل کی طرف آیا تو ہر وہ طبقہ جو احکام شریعت
کا پابند تھا۔ اسلامی تعلیمات پر مکمل عمل پیرا تھا ۔ انہوں نے جابر اور ظالم
حکمرانوں کے مظالم کو ختم کرنے کے لیے عام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا
حضرت خواجہ حسن بصریؒ
اور ان کے اولیاء نے واقعہ ٔکربلا اورواقعہ حرہ بھی دیکھا۔جب یزیدی فوج نے کربلا
اور مدینہ منورہ میں خانوادہ ٔاہل بیت اور صحابۂ کرام ؓ کوتاراج کیا تو مسلمانوں
کا دیندار طبقہ حکومت سے متنفر ہو گیا اوراس نے حکومت سے قطع تعلق کر لیا اورحسرت
و آرزو کے ساتھ عہد ِ نبویؐ اور خلفائے راشدین کے دور کو یادکرتے۔ حجاج بن یوسف کے
مظالم دیکھ کر حضرت خواجہ حسن بصریؒ کو اتنی تکلیف اور اذیت پہنچی کہ آپ مسلسل
گیارہ سال گوشہ نشین رہے اور جب حجاج کے مرنے کی خبر سنی تو سجدہء شکر ادا کیا اور
یہ فرمایا۔اللھم انیِ اخافک واخاف من لایخا فک ۔(ترجمہ) اے اﷲ میں تجھ سے ڈرتا ہوں
اور اس سے ڈرتا ہوں جو تجھ سے نہیں ڈرتا
یہ تھے وہ حالات جن
میں صوفیاء کا پہلا طبقہ وجود میں آیا ۔مؤرخین نے اس طبقے کے زمانے کو۱۶۶ء تا ۰۵۸ء
تک مقرر کیا اس میں خواجہ حسن بصری ؒ، حضرت مالک بن دینارؒ،حضرت محمد واسعؒ ،
حٖضرت حبیب عجمیؒ، حضرت فضیل بن عیاضؒ،حضرت ابراھیم ادھم ؒ شامل ہیں۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ جب ظاہر کی دنیا تاراج اور تاریک ہو
جاتی ہے اور انسان پر یاس و حرمان کا غلبہ ہوتا ہے تو انسان باطن کی طرف متوجہ ہو
جاتا ہے۔دنیا کی بے ثباتی کا رات دن مشاہدہ انسان کو فکرِ آخرت میں غرق کر دیتا
ہے۔ اس لےے ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور کے صوفیا پر خشیت ا لٰہی کا بڑا غلبہ تھا
انسائےکلو پیڈیا برٹا
نیکا کا مکالمہ نگار Islamic Mysticism کے تحت لکھتا ہے ۔
The First Stage of Sufism appeared in pious circles as a
reaction against the worliness of the early ummyada period ( 661-749) from the
practice of constantly meditating on the quranic (Islamic Scripture) words
about doomsday, the ascetics became known as "those who always watch and
those who considered this world " a hut of sorrows" they were
distuinguished by their scruplous fulfilment of the injuntion of the Quran and
traditoin by many acts of piety and especially by a predidilection for night
prayer. .
ترجمہ۔ تصوف کا پہلا
مرحلہ اہل تقویٰ کے حلقوں میں ایک ردِ عمل کی شکل میں نمودار ہو تا ہے۔ وہ ردِ عمل
ابتدائی دور بنو امیہ (۱۶۶ ء ۔ ۹۴۷ء) کی دنیاداری کے خلاف ظہور پذیر ہوا قیامت اور
آخرت کے متعلق آیات قرآنیہ پر تدبر و تفکر کرنے سے ان زہاد کا نام ہی "اہلِ
بکا " پڑ گیا۔ جو دنیا کو ’’دارالمحن‘‘ سمجھتے تھے۔ ان کی امتیازی خصوصیت
قرآن و حدیث کے احکام کی انتہائی احتیاط کے ساتھ بجاآوری ، اعمال خیر کی کثرت اور
شب ِ زندہ داری تھی۔
امراء اور سلاطین کے ہاتھ سے جب عدل و انصاف اور
اخوت و رواداری کا دامن گر گیا ۔رحم کے بجائے ظلم اور کرم کے بجائے ستم ان کا شےوۂ
زیست بن گیا ۔عوام ان سے حد درجہ نالاں ہو گئی تو پھر خدا کے یہ بندے ان کے ظلم
اور جبر سے تنگ آ کر باہر جنگلوں میں نکل آئے۔
اور لوگ آہستہ آہستہ جب اپنے احوال
کی اصلاح کے لیے ان کے پاس جانے لگے تو وہاں خانقاہیں بننی شرو ع ہو گئیں۔ اور جب
خانقاہیں تعمیر ہوئیں عوام الناس کے لیے تربیت گاہیں بن گئیں۔ اور اس طرح تصوف ایک
باقاعدہ نظام بن گیا اور پھر جب یہ صوفیاء دیکھتے کہ کسی خطے میں اسلام تنزل اور
انحطاط کا شکار ہے یا کسی جگہ اسلام کی کرن نہیں پہنچی تو یہ لوگ اپنے آبائی وطن
کو چھوڑ کر وہاں مقیم ہو جاتے اور اپنے فیو ض و برکات سے اس خطے کو نوازتے رہتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment