خود بیداری اور خود نگہداری کے لئے آج
آپ کو ایک لقمان حکیم جیسا نسخہ عطا کرتے ہیں - ذرا غور سے سننا پھر ضرور استعمال
کرنا -
آج کے بعد سے لوگ آپ کے ساتھ جو بھی سلوک کریں یا جو بھی رویہ اختیار کریں یا آپ کے بارے میں جو بھی کہیں ان کو ایسا کرنے دیں اور ان کی راہ میں حائل نہ ہوں -
ان کے رویےاور ان کی طبع میں نہ تو کوئی تبدیلی پیدا کریں اور نہ ہی ان پر اثر انداز ہوں ...............
نہ ہی ان کے کہنے اور کرنے پر نا خوشی کا اظہار کریں نہ ہی نفرین کریں اور نہ ہی اس کا تذکرہ اوروں سے کریں اس موضوع پر زبان ہی نہ کھولیں -
اب یہ سب کیا ہے اور ایسا کیوں کیا جائے ؟
آزادی کے لیے ، شخصی آزادی کے لیے ، اور ذاتی خوشی کے لیے -
یہ ان کے عمل نہیں ہیں جو ہمیں مضطرب کرتے ہیں اور ہمیں وسوسوں میں گھیرتے ہیں بلکہ یہ ہماری اپنی غیر محفوظیت کا خوف ہوتا ہے -
insecurity کا اندیشہ ہوتا ہے اور اس بات کی طلب ہوتی ہے کہ وہ لوگ ہم کو حفاظت میں رکھیں اور سکون میں رکھیں اور جو کام ہم کر رہے ہیں اسے آرام سے کرنے دیں -
تو جناب ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ فرد خود میں تبدیلی پیدا کرے نہ کہ اپنے دوستوں عزیزوں ، رشتےداروں میں تبدیلیاں پیدا کرتا پھرے - اور ان کے دروازوں پر جا کر دبکے مارتا پھرے -
جب تم لوگوں کو من مانی کرنے دو ( ایسا وہ ہر حال میں کریں گے ) اور ان کی راہ کی رکاوٹ نہ بنو تو تمھارے اندر ایک حیرت انگیز تبدیلی رو نما ہوگی -
آپ پہلی مرتبہ دیکھیں گے کہ ان کے رویے پر آپ کا افسوس یا ان کے رویے پر آپ کی سرزنش , آپ کی بیچینی اور تردد کی سب سے بڑی وجہ ہے -
ان کو آپ کی بیچینی یا تردد سے کوئی واسطہ نہیں وہ اس کی بنیاد نہیں ہیں -
اس عمل کو بزرگان دین تلاوت وجود کے نام سے پکارتے ہیں اور اس کو وہ ارفع خود شناسی اور خود عملی کا نام دیتے ہیں -
آج کے بعد سے لوگ آپ کے ساتھ جو بھی سلوک کریں یا جو بھی رویہ اختیار کریں یا آپ کے بارے میں جو بھی کہیں ان کو ایسا کرنے دیں اور ان کی راہ میں حائل نہ ہوں -
ان کے رویےاور ان کی طبع میں نہ تو کوئی تبدیلی پیدا کریں اور نہ ہی ان پر اثر انداز ہوں ...............
نہ ہی ان کے کہنے اور کرنے پر نا خوشی کا اظہار کریں نہ ہی نفرین کریں اور نہ ہی اس کا تذکرہ اوروں سے کریں اس موضوع پر زبان ہی نہ کھولیں -
اب یہ سب کیا ہے اور ایسا کیوں کیا جائے ؟
آزادی کے لیے ، شخصی آزادی کے لیے ، اور ذاتی خوشی کے لیے -
یہ ان کے عمل نہیں ہیں جو ہمیں مضطرب کرتے ہیں اور ہمیں وسوسوں میں گھیرتے ہیں بلکہ یہ ہماری اپنی غیر محفوظیت کا خوف ہوتا ہے -
insecurity کا اندیشہ ہوتا ہے اور اس بات کی طلب ہوتی ہے کہ وہ لوگ ہم کو حفاظت میں رکھیں اور سکون میں رکھیں اور جو کام ہم کر رہے ہیں اسے آرام سے کرنے دیں -
تو جناب ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ فرد خود میں تبدیلی پیدا کرے نہ کہ اپنے دوستوں عزیزوں ، رشتےداروں میں تبدیلیاں پیدا کرتا پھرے - اور ان کے دروازوں پر جا کر دبکے مارتا پھرے -
جب تم لوگوں کو من مانی کرنے دو ( ایسا وہ ہر حال میں کریں گے ) اور ان کی راہ کی رکاوٹ نہ بنو تو تمھارے اندر ایک حیرت انگیز تبدیلی رو نما ہوگی -
آپ پہلی مرتبہ دیکھیں گے کہ ان کے رویے پر آپ کا افسوس یا ان کے رویے پر آپ کی سرزنش , آپ کی بیچینی اور تردد کی سب سے بڑی وجہ ہے -
ان کو آپ کی بیچینی یا تردد سے کوئی واسطہ نہیں وہ اس کی بنیاد نہیں ہیں -
اس عمل کو بزرگان دین تلاوت وجود کے نام سے پکارتے ہیں اور اس کو وہ ارفع خود شناسی اور خود عملی کا نام دیتے ہیں -
No comments:
Post a Comment