Monday, September 24, 2012

Kitaab - chor



ہر اردو ادیب کے نام آئے دن مختلف پبلیشروں کے میل اور خطوط آتے رہتے ہیں کہ 

شاندار سر ورق، کتابت اور طباعت کیلئے ہم سے رجوع کیجئے۔ یقیناً اس کاروبارمیں
بہت فائدہ ہے ورنہ اردو کیلئے فی سبیل اللہ کوئی اتنا وقت برباد کرے اور ادیبوں
کی طرح اپنا خون جلائے اور راتوں کی نیند اور دن کا چین غارت کرے یہ
ناممکن ہے

اس وقت اردو کا سب سے بڑا مسئلہ کتابوں کی اشاعت نہیں بلکہ ان کی تقسیم ہے۔
جہاں تک مذہبی کتابوں کا معاملہ ہے آپ طہارت یا نماز کے مسائل و فضائل پر یا
بنکنگ، سود، فیملی پلاننگ، لائف انشورنس وغیرہ کی حرمت پر سالہا سال بلکہ
صدی پرانے فتووں کو کاپی پیسٹ کرکے چھپوایئے یہ پھر بھی بک جاتی ہیں۔ لیکن مسئلہ
ان کتابوں کا ہے جن کا تعلق نئی تحقیق سے ہے۔ لوگ یہ رونا روتے ہیں کہ قوم میں
اچھے صحافی، دانشور، مفکر، اہل ادب یا ماہرین تعلیم یا دوسرے موضوعات کے
ماہرین کا فقدان ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ قوم آج بھی اردو کے ایک سے اعلی ایک
قابل ترین ادیبوں اور دانشوروں سے بھری پڑی ہے۔

ہر ادیب اپنی پہلی کتاب ایک بڑے انقلاب برپا کرنے کی آس میں شائع کرواتا ہے۔
ناشر اپنے پیسے وصول کرکے کتابوں کا ڈھیر حوالے کر کے رخصت ہوجاتا ہے
پھر اسکے بعد ادیبوں ہی سے پوچھئے۔ جتنی محنت زکوۃ و خیرات وصول کرنے
والوں کو نہیں کرنی پڑتی اتنی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ان بیچاروں کو کتابوں کے اس
ڈھیر کو کسی سلیقے کے قاری تک پہنچانے میں لگتی ہے۔ آدھی سے زیادہ کتابیں
مفت دینی پڑتی ہیں جو کبھی پڑھی نہیں جاتیں۔ کچھہ کتابیں لوگ مروتاً رحم کھاکر
خرید لیتے ہیں جو پڑھتے نہیں۔ کچھہ ادیب یونیورسٹیوں یا اردو اکیڈیمی اور
ساہتیہ اکیڈیمی جیسے
اداروں سے تعلقات یا اپنے اختیارات کے بل بوتے کئی کتابیں شائع کروالیتےھیں۔ یہ
مواد کے اعتبار سے بہت کمزور ہوتی ہیں لیکن ادیب کی پبلسٹی تو ہو ہی جاتی ہے۔
جو کتابیں واقعی پڑھنے کے قابل ہوتی ہیں وہ کبھی صحیح قاری تک پہنچ نہیں پاتیں۔
اسی لئے اب اردو کا قاری کسی نئی کتاب کو نہیں پڑھتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ
کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق اسکا وقت ضائع ہوگا۔

پھر ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ اردو کے قاری کو انٹرینٹ پر دینا تمام کا گھسا پٹا مواد
خوب مل رہا ہے جس پر وہ اپنی دو کوڑی کی رائے بھی پیش کرسکتا ہے۔ یاہوگروپس
اور گوگل گروپس پر وہ اپنے دوچار مضامین کے ذریعے ہزاروں قاریوں تک پہنچ کر
اپنے تئیں خود بھی ایک مستند ادیب بن جاتا ہے جس کے بعد پھر اسے کسی اور ادیب
کو پڑھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔


دوسرا مسئلہ یہ ہیکہ اردو کا قاری فلم، برتھہ ڈے پارٹی یا بیگم کی شاپنگ پر تو خوب
خرچ کرسکتا ہے لیکن اردو کی کتاب اگر مفت ہاتھہ آئے تو ہی سرسری پڑھتا ہے ورنہ
اردو سے بے نیاز رہتا ہے ۔ بڑے شرم کی بات ہے کہ مغرب میں انگریزی کی کتابوں کی
طرح اب ہندی، تلگو، مرہٹی وغیرہ کی کتابیں کئی کئی ہزار کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں لیکن
اردو کی دو چار فیصد ہی کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک ہزار کی تعداد میں شائع
ہونے کے بعد ان کے نصیب میں دوبارہ شائع ہونا ہوتا ہے۔ دوسری زبانوں کے ادیب
ایک کتاب شائع کرواکر اپنا گھر بنالیتے ھیں اور اردو کا ادیب کو اپنا گھر بیچنے کی
نوبت آتی ھے۔
امریکہ میں ایک کمپنی ھے جو بک آف دی منت {اس ماہ کی کتاب} کے نام سے ھے۔
یہ لوگ بے شمار موضوعات پر کتب شائع کرتے ھیں اور ھر قاری کو اسکی
پسند کے مطابق سالانہ خریدار بنا کر ایک کتاب بھیجتے ھیںاور اس شرط کے ساتھہ
بھیجتے ھیں کہ اگر کتاب پسند نہ آئے تو پیسے واپس کردیئے جاتے ھیں۔ اسطرح وھاں
کی ھر کتاب بیسٹ سیلر ھوجاتی ھے۔ کاش ھمارے پبلیشر یہ کام بھی ساتھہ ساتھہ
کرنے لگیں۔
پھر ایک اور مسئلہ یہ بھی ھیکہ بعض ناشر اتنے چالاک ھوتے ھیں کہ جس کتاب کے
بارے میں انہیں یقین ھوتا ھے کہ وہ خوب بکے گی اسکو جتنے کا آرڈر ھے اس سے
کہیں زیادہ چھاپتے ھیں۔ جو باھر کب بیچ لیتے ھیں غریب ادیب کو اس کا پتہ ہی نہیں
چلتا وہ اس خوش فہمی میں رھتا ھے کہ شائد اسکے ھی کسی ڈسٹریبیوٹر نے دکانوں
پر رکھوائی ھوگی۔

پھر سرقہ توھندوستان پاکستان کے خون میں داخل ھے۔ یہاں کے ناشر وھاں پر اور وہاں
کے ناشر ادھر ایک دوسرے کی کتابوں کو دھڑلے سے چھاپ کر فروخت کرلیتے
ھیں۔ ڈاکٹر اوصاف احمد صاحب مشیر اسلامک ڈیولپمنٹ بنک نے کئی سال کی محنت
کے بعد "بیسویں صدی کی اردو شاعری" تالیف کی اور اسی طرح مولانا عبدالرحمان
صاحب نے نبیوں کے قصص کو مستند احادیث اور روایات کی روشنی میں دو جلدوں
میں قلمبند کیا۔ ایک ایک پیسہ جوڑ کر شائع کروایا۔ یہی کتابیں بعد میں پاکستان سے
شائع ھوکر "چوری اور سینہ زوری" کے مصداق جدہ ھی کے بازار میں آگئیں اور
خود مصنف کو اپنی کتابیں پیسے دے کر خریدنی پڑیں۔ 

اردو کے بڑے اخباروں کے مالکان ایک طرف اردو کی خدمت کا ڈھونگ رچاتے ھیں
اور دوسری طرف اسی اردو سے لاکھوں کماکر راجیہ سبھا اور لوگ سبھا کی سیٹیں
خرید کر اپنی مارکٹ بڑھاتے ھیں۔ انہیں اخبارات کے صفحے کسی طرح کالے کرکے اشتہارات
چھاپ کر پیسہ کمانا ھوتا ھے اس سے غرض نہیں کہ کون کس درجے کا ادیب ھے۔
اسلئے انہیں ایسے بے شمارندیدے ادیب مل جاتے ھیں جنہیں محض اپنا نام شائع کروانے اور
تھوڑی بہت مبارکبادیاں حاصل کرلینے سے دلچسپی ھوتی ھے اسلئے وہ کچھ بھی
اناپ شناپ لکھہ کر نام اور تصویر چھپواکر اخبار مالک کی بلا معاوضہ مدد کردیتے ھیں۔

مختصر یہ کہ اگر پبلیشر حضرات اردو کی واقعی کوئی خدمت کرنا چاھتے ھیں تو پہلے
یہ کریں کہ کتابوںکی تقسیم کی منصوبہ بندی کریں دوسری زبانوں کے ناشروں سے
مارکٹنگ کرنا سیکھیں اور اردو کی اچھی کتابوں کو پڑھوانے اور اسکے ساتھہ ساتھہ
ادیبوں کو بھرپور معاوضہ ادا کرنے کی نیت کریں۔

 اس سے زبان ترقی کرے گی ۔ بے شمار
موضوعات جیسے سیاسی، معاشی، ادبی، تعلیمی، نفسیاتی، سماجی وغیرہ پر جب اردو
لٹریچر سامنے آئے گا تو خود اردو والے دنگ رہ جائیں گے کہ اردو میں انگریزی سے
بھی کہیں زیادہ طاقتور لٹریچر لکھنے والے موجود ھیں۔ اس سے ان کے کاروبار میں
بھی زبردست اضافہ ھوگا۔ سلیقے کے ادیب سامنے آئیں گے اور سلیقے کے قاری بھی

No comments:

Post a Comment