عشاق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔
اللہ تعالی کا خود سرکار عالم و بالا و تحت و اسرار سے عشق اور درود پاک
کا خود پڑھنا اور ملایکہ کو اور تمام انبیاء و رسل اکرام کو پڑھنے کا حکم
دینا، تمام متقین مومنین مسلمین (رجل و نساء) کو بھی حکم دینا۔
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اَعمال کی بنیاد رکھ
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
آفتابِ نبوت کا آغوش میں ھونا اور آفتاب جہان کا غروب ھونا نماز کا قضاء
ھونا ،،کبھی مائل بہ غروب سورج کو تکتے جان تو کبھی آفتابِ رسالت کے طلوع
کا منظر دیکھتےجانا۔
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
اسیران جمال مصطفی
سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے عمر رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ اسیرِحسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مجھے کیا خبر تھی رکوع کی، مجھے ہوش کب تھا سجود کا
ترے نقشِ پاکی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلقِ عشقی جسکی کوی مثال نھیں ھے۔
نمازیں گر قضا ہوں پھر ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں
بلال رضی اللہ تعالی کا عشق۔ یہ بات ذھن نشین ھو کہ بلال رضی اللہ تعالی عنہ موذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
اسیرِ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ صاحب کیفیتِ اِضطراب۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ۔
حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ کا فقید المثال جذبۂ حبّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کشتۂ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اسیرانِ حُسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خادمِ رسالت مآب حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی صفِ اوّل میں کھڑے نظر آتے ہیں
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرزندِ ارجمند سیدنا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اسمِ گرامی اسیرانِ حُسنِ مصطفیٰ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم میں بڑے ادب سے لیا جاتا ہے، آپ بھی اپنے عظیم باپ کے نقشِ
قدم پر چلتے ہوئے محبتِ رسول کا پیکرِ اتم بن گئے تھے
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو غلامیء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شرف نصیب ھوا۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی آتشِ شوق (قبل مشرف با اسلام آپ ایک آتش پرست تھے)
حضرت زید بن دثِنّہ رضی اللہ عنہایک کامل عاشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ جذبۂ جان نثاری کا متوالے
حضرت سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ کا خوبصورت ’’قصاص‘‘
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ پیکر جذبۂ ایثار و محبت۔
حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ طالب تمنائے شہادت اور صاحب تلوار مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ عشقِ رسول کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔
رئیس المنافقین کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کا لافانی کردار جو اپنے
منافق باپ کو شان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطرقتل کرنے پر تیار ھو
گے تھے۔
جس طرح سب سے پہلے اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہونے کا
اعزاز ایک معزز خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کو حاصل ہوا اُسی طرح
سب سے پہلے حق کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت بھی ایک خاتون
کو حاصل ہوئی۔ یہ خاتون حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا تھیں۔ آپ حضرت عمار رضی اللہ
عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں، جنہوں نے ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جان
کی قربانی پیش کی۔
حضرت عداس رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے قدموں میں(یہ وہ صحابی ھیں جو مضروبِ طائف حضور رحمتِ عالم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس خوشہ انگور لیے حاضر ھوے تھے اور ا سلام قبول
فرمایا تھا)
حضرت ہند بنت حزام رضی اﷲ عنہاآپ ایک صحابیہ استقامت تھیں۔
غسیل الملائکہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا مقامِ عشق وجوان صحابی حضرت
حنظلہ بن ابو عامر رضی اللہ عنہ شادی کی پہلی رات اپنی بیوی کے ساتھ حجلۂ
عروسی میں تھے کہ کسی پکارنے والے نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے حکم پر جہاد کے لئے پکارا۔ وہ صحابی اپنے بستر سے اُٹھے۔ دلہن نے کہا
کہ آج رات ٹھہرجاؤ، صبح جہاد پر روانہ ہو جانا۔ مگر وہ صحابی جو صہبائے عشق
سے مخمور تھے، کہنے لگے : اے میری رفیقۂ حیات! مجھے جانے سے کیوں روک رہی
ہو؟ اگر جہاد سے صحیح سلامت واپس لوٹ آیا تو زندگی کے دن اکٹھے گزار لیں گے
ورنہ کل قیامت کے دن ملاقات ہوگی۔‘‘
اس صحابی رضی اللہ عنہ کے اندر
عقل و عشق کے مابین مکالمہ ہوا ہوگا۔ عقل کہتی ہوگی : ابھی اتنی جلدی کیا
ہے؟ جنگ تو کل ہوگی، ابھی تو محض اعلان ہی ہوا ہے۔ شبِ عروسی میں اپنی دلہن
کو مایوس کر کے مت جا۔ مگر عشق کہتا ہوگا : دیکھ! محبوب کی طرف سے پیغام
آیا ہے، جس میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی روا نہیں۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ
اسی جذبۂ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور
مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ اللہ رب العزت کے فرشتوں نے انہیں غسل دیا اور
وہ ’غسیل الملائکہ‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔
عشاق رسول اللہ صلہ
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فہرست طویل ھے۔ بس آج ھمکو اسی جزبہ عشق کی ضرورت
ھے۔اسی جذبے کے احیاء کی آج پھر ضرورت ہے۔ اگر ہم جوان نسل میں کردار کی
پاکیزگی، تقدس اور ایمان کی حلاوت نئے سرے سے پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں
ان میں اس تعلقِ عشقی کو کوٹ کوٹ کر بھرنا ہوگا۔ جزاک اللہ۔
اللہ تعالی کا خود سرکار عالم و بالا و تحت و اسرار سے عشق اور درود پاک کا خود پڑھنا اور ملایکہ کو اور تمام انبیاء و رسل اکرام کو پڑھنے کا حکم دینا، تمام متقین مومنین مسلمین (رجل و نساء) کو بھی حکم دینا۔
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اَعمال کی بنیاد رکھ
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
آفتابِ نبوت کا آغوش میں ھونا اور آفتاب جہان کا غروب ھونا نماز کا قضاء ھونا ،،کبھی مائل بہ غروب سورج کو تکتے جان تو کبھی آفتابِ رسالت کے طلوع کا منظر دیکھتےجانا۔
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
اسیران جمال مصطفی
سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے عمر رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ اسیرِحسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مجھے کیا خبر تھی رکوع کی، مجھے ہوش کب تھا سجود کا
ترے نقشِ پاکی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلقِ عشقی جسکی کوی مثال نھیں ھے۔
نمازیں گر قضا ہوں پھر ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں
بلال رضی اللہ تعالی کا عشق۔ یہ بات ذھن نشین ھو کہ بلال رضی اللہ تعالی عنہ موذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
اسیرِ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ صاحب کیفیتِ اِضطراب۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ۔
حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ کا فقید المثال جذبۂ حبّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کشتۂ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اسیرانِ حُسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خادمِ رسالت مآب حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی صفِ اوّل میں کھڑے نظر آتے ہیں
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرزندِ ارجمند سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اسمِ گرامی اسیرانِ حُسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بڑے ادب سے لیا جاتا ہے، آپ بھی اپنے عظیم باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے محبتِ رسول کا پیکرِ اتم بن گئے تھے
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو غلامیء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شرف نصیب ھوا۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی آتشِ شوق (قبل مشرف با اسلام آپ ایک آتش پرست تھے)
حضرت زید بن دثِنّہ رضی اللہ عنہایک کامل عاشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ جذبۂ جان نثاری کا متوالے
حضرت سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ کا خوبصورت ’’قصاص‘‘
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ پیکر جذبۂ ایثار و محبت۔
حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ طالب تمنائے شہادت اور صاحب تلوار مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ عشقِ رسول کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔
رئیس المنافقین کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کا لافانی کردار جو اپنے منافق باپ کو شان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطرقتل کرنے پر تیار ھو گے تھے۔
جس طرح سب سے پہلے اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہونے کا اعزاز ایک معزز خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کو حاصل ہوا اُسی طرح سب سے پہلے حق کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت بھی ایک خاتون کو حاصل ہوئی۔ یہ خاتون حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا تھیں۔ آپ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں، جنہوں نے ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جان کی قربانی پیش کی۔
حضرت عداس رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں(یہ وہ صحابی ھیں جو مضروبِ طائف حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس خوشہ انگور لیے حاضر ھوے تھے اور ا سلام قبول فرمایا تھا)
حضرت ہند بنت حزام رضی اﷲ عنہاآپ ایک صحابیہ استقامت تھیں۔
غسیل الملائکہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا مقامِ عشق وجوان صحابی حضرت حنظلہ بن ابو عامر رضی اللہ عنہ شادی کی پہلی رات اپنی بیوی کے ساتھ حجلۂ عروسی میں تھے کہ کسی پکارنے والے نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر جہاد کے لئے پکارا۔ وہ صحابی اپنے بستر سے اُٹھے۔ دلہن نے کہا کہ آج رات ٹھہرجاؤ، صبح جہاد پر روانہ ہو جانا۔ مگر وہ صحابی جو صہبائے عشق سے مخمور تھے، کہنے لگے : اے میری رفیقۂ حیات! مجھے جانے سے کیوں روک رہی ہو؟ اگر جہاد سے صحیح سلامت واپس لوٹ آیا تو زندگی کے دن اکٹھے گزار لیں گے ورنہ کل قیامت کے دن ملاقات ہوگی۔‘‘
اس صحابی رضی اللہ عنہ کے اندر عقل و عشق کے مابین مکالمہ ہوا ہوگا۔ عقل کہتی ہوگی : ابھی اتنی جلدی کیا ہے؟ جنگ تو کل ہوگی، ابھی تو محض اعلان ہی ہوا ہے۔ شبِ عروسی میں اپنی دلہن کو مایوس کر کے مت جا۔ مگر عشق کہتا ہوگا : دیکھ! محبوب کی طرف سے پیغام آیا ہے، جس میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی روا نہیں۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ اسی جذبۂ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ اللہ رب العزت کے فرشتوں نے انہیں غسل دیا اور وہ ’غسیل الملائکہ‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔
عشاق رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فہرست طویل ھے۔ بس آج ھمکو اسی جزبہ عشق کی ضرورت ھے۔اسی جذبے کے احیاء کی آج پھر ضرورت ہے۔ اگر ہم جوان نسل میں کردار کی پاکیزگی، تقدس اور ایمان کی حلاوت نئے سرے سے پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان میں اس تعلقِ عشقی کو کوٹ کوٹ کر بھرنا ہوگا۔ جزاک اللہ۔
No comments:
Post a Comment